صوبائی حکومت لوگوں کو روزگاردینے کا سلسلہ جاری رکھے گی وفاق اگر پینشن کے لئے فنڈ قائم کرے تو کوئی اعتراض نہیں ، صوبائی وزیر خزانہ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان حکومت کے پینشن کے اخراجات 48ارب روپے سے تجاوز کر گئے، صوبے کے پینشن اخراجات 2025تک 60ارب روپے تک ہونے کا امکان، معاشی ماہرین نے تجویز دی ہے کہ صوبائی حکومت خصوصی پینشن فنڈ قائم کرے یا پینشن فنڈ مینجمنٹ کمپنی کے ذریعے پینشن کے معاملات چلائے تو خزانے پر بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔بلوچستان حکومت کے محکمہ خزانہ کے دستاویزات کے مطابق بلوچستان حکومت کے مالی سال 2019-20میں پینشن کی مد میں اخراجات 32.468ارب تھے جو مالی سالی 2020-21میں 39.184ارب روپے ہوگئے مالی سال2021-22میں پینشن اخراجات 46.7ارب روپے ہوئے جبکہ اس سال ان اخراجات کا تخمینہ چار فیصد اضافے کے ساتھ 48.3ارب روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔محکمہ خزانہ کے ایک افسر نے بتایا کہ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے پینشن اخراجات کے حوالے سے پالیسی کی تجویز دی گئی ہے جسے کابینہ میں پیش کرکے منظوری لی جائیگی۔اہلکار نے بتایا کہ وفاقی سطح پر پینشن کمیشن قائم کیا گیا لیکن ابھی اس حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے رواں مالی سال میں اڑھائی ارب روپے کی لاگت سے بلوچستان پینشن فنڈ کے قیام کااعلان بھی کیا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ رقم اب بھی اخراجات پورے کر نے کے لحاظ سے انتہائی کم ہے صوبے میں پیشنش کی مد 16ہزار 381ملین روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جس سے مالی سال 2021-22میں 3ہزار 133ملین روپے کا منافع حاصل ہوا جبکہ اس سرمایہ کاری کے میچور ہونے کے بعد یہ رقم 45ہزار ملین سے تجاوز کر جائیگی تاہم اس کے لئے وقت درکار ہے جبکہ پینشن اخراجات کے بڑھنے کے تناسب سے یہ رقم کم ہے۔اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ اور صوبے کے معاشی امور کے ماہر محفوظ علی خان نے بتایا کہ سال1996میں بلوچستان کا پینشن کا خرچ صرف 870ملین روپے تھا جو آج بڑھ کر 50ارب روپے ہوگیا ہے یہ خرچ 2025میں 60ارب جبکہ 2030میں 130ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ بلوچستان حکومت کے اس وقت 2لاکھ 70ہزار ملازمین ہیں اگر حکومت ابھی سے ایک خصوصی فنڈ قائم کردے یا دنیا بھر کی طرح یہاں بھی پینشن مینجمنٹ کمپنی سے معاہد ہ کر لے تو اس مسئلے کا مستقل حل تلا ش کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے ریٹائر ہونے کے بعد انہیں، ریٹائر ملازم کی وفات کے بعد انکے خاندان کو ایک طویل عرصے تک یہ مراعات ملتی رہتی ہیں یوں ایک شخص کے خاندان کو تاحیات پینشن ملتی رہتی ہے۔انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ فنڈ قائم کر کے اس میں سرکار اور ملازمین کی مشترکہ سرمایہ کاری کرلی جائے تو اس فنڈ میں ملازمین کی اونر شپ بھی آئیگی۔محفوظ علی خان نے کہا کہ جامعہ بلوچستان کے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پینشن کا اجراء نہیں ہورہا۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کو ایک بار یک مشت اور کچھ عرصے تک پینشن کے اجراء کا نظام بھی لایا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان سول سیکرٹریٹ آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری محمد امین بادینی نے بتایابڑھتی ہوئی پینشن کے پیش نظراقدامات اٹھاناناگزیر ہے حکومت اگر ایک خصوصی فنڈ قائم کرے تو یہ بہتر عمل ہوگا جس سے مستقبل میں مالی مشکلات میں کمی آسکے گی۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں کئی آسامیاں اب کنٹریکٹ پر رکھی جارہی ہیں تاکہ مستقل ملازمین کی طرح انہیں بھی پینشن ادا کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو مستقبل میں حکومت کے پاس تنخواہیں اداکرنے کے پیسے بھی نہیں ہونگے۔انہوں نے یہ بھی تجویزدی کہ صوبائی حکومت بولان اپارٹمنٹس اسلام آباد کی طرز پر اثاثے بنانے کے بعد ان سے حاصل ہونے والی آمدن سے پینشن فنڈ میں مستقل سرمایہ کاری کردے تو صوبے کو اس مد میں آمدن حاصل ہوتی رہے گی۔بلوچستان کے وزیر خزانہ انجینئر زمر ک خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے پینشن کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے ہم لوگوں کو روزگار دینا بند نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پینشن کا نظام ملکی سطح پر ہے اس کی تبدیلی کے لئے لائحہ عمل بھی ملکی سطح کا ہونا چاہیے ہم اپنے وسائل سے ریونیو حاصل کریں گے اگر ضرورت پڑی تو وفاق سے بات بھی کریں گے لیکن صوبے کے عوام کو کسی بھی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ پینشن سے زیادہ ہمیں غیر ضروری اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے جس پر کام جاری ہے اس وقت صوبے میں ایک فنڈ قائم ہے جس میں پینشن کے لئے سرمایہ کاری کی گئی ہے ہم 50ارب کا خصوصی فنڈ تو قائم نہیں کرسکتے لیکن اس تجویز سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر وفاق ایک فنڈ قائم کردے جس سے صوبے کو پینشن کے لئے پیسے ملتے رہیں تو یہ بہتر ہوگا اور ہم اسکی حمایت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم غیر ضروری آسامیاں نہیں دے رہے لیکن جہاں ضروری ہے وہاں لوگوں کے روزگار کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔