پولیس نے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل گلگت بلتستان اسمبلی سیل کردی

گلگت (ڈیلی گرین گوادر) گلگت بلتستان میں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخابات سے قبل پولیس کی بھاری نفری نے اسمبلی میں داخل ہوکر اسمبلی ہال کو سیل کرکے ملازمین اور صحافیوں کو اسمبلی عمارت سے نکال دیا جس کی وجہ سے انتخابی عمل بےیقینی سے دوچار ہوگیا۔گلگت بلتستان اسمبلی کے سیکریٹری عبدالرزاق کی جانب سے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے جاری شیڈول کے مطابق آج 12 بجے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے راجا اعظم خان، پیپلز پارٹی کی طرف سے امجد ایڈووکیٹ، مسلم لیگ (ن) کے انجینیئر انور اور جمعیت علمائے اسلام کے رحمت خالق نے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔کاغذات نامزدگی کا عمل مکمل ہوتے ہی پولیس کی بھاری نفری ڈی آئی جی فرمان علی کی سربراہی میں اسمبلی میں داخل ہوگئی اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے کھولے گئے اسمبلی ہال کو دوبارہ بند کروا دیا۔

پولیس کے جونیئر افسران نے صورتحال کے بارے میں بتایا کہ اسمبلی عمارت میں موجود تحریک انصاف کے بعض ارکان اسمبلی جن کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں ان کی گرفتاری عمل میں لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔اسمبلی کے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اسمبلی کے اندر اور باہر موجود ہے، گلگت بلتستان اسمبلی میں 3 بجے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے رائے شماری ہونی تھی لیکن صورتحال پیچیدہ ہو گئی۔

دوسری طرف بعض ارکان اسمبلی نے سپریم اپیلٹ کورٹ میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو روکنے کے خلاف حکم امتناع کی درخواست دائر کردی۔سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ نئے قائد ایوان کے انتخاب کو عمل میں لانے کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس کو بم کی افواہ پھیلا کر ملتوی کرا دیا گیا جس کا مقصد ہمارے ارکان کو خرید کر مینڈیٹ چوری کرنے کی کوشش ہے۔

اپنے ویڈیو پیغام میں سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز قائد ایوان کے انتخاب کے لیے جو اجلاس بلایا گیا تھا اسے جبری طور پر ملتوی کرانے کی کوشش ہو رہی ہے اور عدالت سے تیزی سے اجلاس ملتوی کرانے کے لیے حکم امتناعی لینے کی بھی اطلاع ہے تاکہ ہفتے تک انتخابی عمل کو التوا میں ڈال کر ہمارے ممبران کو پہلے خریدا جا سکے اور ناکامی ہوئی تو مجھ سمیت چیدہ چیدہ ارکان اسمبلی کو گرفتار کرکے تحریک انصاف کی عددی اکثریت کو تبدیل کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے پیچھے مقاصد ہمارے امیدوار راجہ اعظم جس کو کو بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب کرانے سے روکنا ہے یہ عمل ایک حساس علاقے میں دھرانا افسوس ناک ہے ۔ایک روز قبل گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو ریجن کی بار کونسل سے جعلی ڈگری کی بنیاد پر لائسنس حاصل کرنے کے الزام میں نااہل قرار دیا تھا۔تاہم پہلی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے فوراً بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) فرمان علی کی سربراہی میں پولیس کی بھاری نفری اسمبلی ہال میں داخل ہوئی اور اسے سیل کر دیا۔

ادھر پی ٹی آئی کے فرخ حبیب نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ’سیاسی انجینئرنگ‘جاری ہے، پی ٹی آئی کی ’واضح برتری‘ کی روشنی میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ملتوی کیا گیا، ایسے اقدامات سے عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنی خرید و فروخت کا گھناؤنا کھیل کھیلنے کے لیے اجلاس بلانے میں تاخیر کی کوشش کر رہی ہے جو کہ قابل مذمت عمل ہے۔

جسٹس ملک عنایت الرحمٰن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس محمد مشتاق پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزیر اعلیٰ کے خلاف نااہلی کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا تھا۔درخواست گزار نے اپنے وکیل امجد حسین کے ذریعے موقف اختیار کیا کہ خالد خورشید کی جمع کرائی گئی ڈگری کی لندن یونیورسٹی سے تصدیق نہیں ہوئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اسے جعلی قرار دیا ہے۔

29 مئی کو عدالت کے چیف جج علی بیگ نے جسٹس ملک عنایت الرحمٰن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس محمد مشتاق پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جسے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے اور 14 روز کے اندر کیس ختم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔عدالت نے اس معاملے پر ایچ ای سی، وزیر اعلیٰ، گلگت بلتستان بار کونسل اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

اس سے قبل آج صبح گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکین اسمبلی نے خالد خورشید کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائی تھی۔گلگت بلتستان اسمبلی کے سیکریٹری عبدالرزاق نے تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر 9 اراکین اسمبلی کے دستخط موجود ہیں، اس پر مزید قانونی کارروائی آگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے