سرداربابرموسیٰ خیل نے سردار یار محمد رند اوردھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کردی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سرداریار محمد رند نے اعوان برداری کے تین افراد کے قتل اور دو کو زخمی کرنے کے مقدمے میں نامزد ملزمان کی عدم گرفتاری پر اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیاجبکہ ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے سردار محمد رند اور دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کردی جو وزیراعلیٰ سے اختیار لینے کے بعد سردار یار محمد رند اور اعوان برداری کے لواحقین سے مذاکرات کریگی۔ منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے کہا کہ بارہ نومبر کو زمین کے تنازعے پر تین افراد کو قتل جبکہ دو کو زخمی کیاگیا ان افراد کے قتل میں بی اے پی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نامزد کیا گیا ہے مقتولین میں سے ایک نے ان کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی تھی کہ ان کے گھروں کو گھیرے میں لے لیاگیا ہے اور پینے کا پانی تک میسر نہیں ہے جب مقتولین نے اپنی فصل بچانے کی کوشش کی تو انہیں قتل کیاگیا انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں بچے کا تحفظ کرتی ہے لیکن یہاں ریاست نے عوام کو تحفظ فراہم نہیں کیا۔ بے گناہ لوگ قتل ہوئے ان کے قتل کی ایف آئی آر انتظامیہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کررہی تھی جس پر دو دن تک میرے بیٹے سمیت لواحقین نے لاشوں کے ہمراہ قومی شاہراہ پر احتجاج کیا جس کے بعد نو افراد کو مقدمے میں نامزد کیا گیا مقتولین میرے حلقے اور ضلع کے لوگ ہیں سو دن ہوگئے ہیں مگر حکومت نے ان لوگوں کی داد رسی نہیں کی۔ یہ اس حکومت نے کیا ہے جن کی حمایت جمعیت علماء اسلام، بی این پی، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم کو تین بار موقع دیا گیا کہ وہ ضمانت حاصل کرلیں ملزم گورنر ہاؤس میں گورنر اور ڈپٹی سپیکر سے ملا، وزیراعلیٰ کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا اور ان کی تصاویر باقاعدہ اخبارات میں شائع کروائی گئیں کیا مرنے والے بلوچستان کے لوگ اور انسان نہیں تھے؟ بارہ سو ایکڑ زمین کو بزور طاقت چھیننے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ یہ لوگ پیسے لیں اور اپنا گاؤں چھوڑ دیں انکار کرنے پر انہیں قتل کردیاگیا انہوں نے کہا کہ معزز عدالت کے پاس وقت نہیں کہ وہ اس واقعے کا نوٹس لیتی ہم انصاف کے لئے کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ چار دن سے احتجاج پر ہیں لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ چالیس گھنٹے بولان میں شاہراہ کو بند کیا تو مشیر داخلہ کی درخواست پر دھرنا کوئٹہ منتقل کیا آج ہم اسمبلی میں آئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ تین افراد قتل ہوئے ہیں لیکن قاتل گرفتار نہیں ہورہے۔ امن وامان کے لئے مختص ساٹھ ارب روپے کہاں خرچ ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم بی اے پی کا عہدیدار اور بڑا آدمی ہے تو کیا ہم اسے چھوڑ دیں ہمیں راستہ بتایا جائے کہ ہم کیا کریں۔ شدید سردی میں لوگ اسمبلی کے دروازے پر انصاف مانگ رہے ہیں وزیراعلیٰ یا د رکھیں کہ جب تک یہ پارلیمنٹ ہے اور میں رکن اسمبلی ہوں انہیں روز اسمبلی اور گلی کوچوں میں انہیں ان کے ذمہ داریاں او رفرائض یاد دلاتا رہوں گے اور انہیں قاتلوں کو گرفتار کرنا ہوگا انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے درخواست کی کہ چیف سیکرٹری کو بلا کر پوچھا جائے کہ مرکزی ملزم کو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا۔ ملزم نے ابھی تک صرف عبوری ضمانت لی ہے لیکن کسی حکومتی ادارے میں یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف کھڑے ہو کر عدالت میں بات کرے۔وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کے کہنے پر مقدمہ کرائم برانچ منتقل ہوگیا یہ وہی ادارہ ہے جو مجرموں کو تحفظ دیتا ہے کسی کو بچانا ہو تو مقدمہ کرائم برانچ بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ قانونی طریقے سے ملزم کو بری کرادیں انہوں نے کہا کہ اعوان برادری کے افراد کے قتل میں اب تک ایک ملزم کا چالان ہوا ہے کیا ملزمان زورآور ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی قائم کی جائے جو ملزمان کی گرفتاری کے لئے اقدامات اٹھائے۔ اجلاس میں ایڈووکیٹ جنرل آصف ریکی نے ایوان کو بتایا کہ اعوان برادری کے افراد کے قتل کا مقدمہ درج ہے جس میں ایک ملزم عبوری ضمانت پر ہے دیگر ملزمان کے چالان ایڈیشنل سیشن جج ڈھاڈر کی عدالت میں جمع ہوئے ہیں اور وارنٹ بھی جاری کردیئے گئے ہیں جس ملزم کی ضمانت ہوئی ہے وہ آزادانہ طور پر نقل وحرکت کرسکتا ہے انہوں نے کہا کہ سردار یار محمد رند ملزمان کی نشاندہی کریں یا اپنا کوئی نمائندہ بھجوائیں تو حکومت چھاپہ مار کر ملزمان کی گرفتار ی عمل میں لاسکتی ہے۔سردار یار محمد رند ایڈووکیٹ جنرل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ملزمان کو گرفتار نہیں کرنا چاہتی کوئی شخص کیسے ملزمان کی نشاندہی کرسکتا ہے یہ حکومت کاکام ہے اس موقع پر انہوں نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا تاہم بعدمیں انہیں اراکین منا کر دوبارہ ایوان میں لائے۔پی ٹی آئی کے رکن و صوبائی وزیر میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ کی جانب سے یہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ یہ کیس عدالت میں ہے اور حکومت اس میں غیر جانبدار رہ کر اپنا کردار ادا کرے گی اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔ہم ایک کمیٹی بنا سکتے ہیں اور سردار صاحب سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ کچھ روز کے لئے دھرنا موخر کردیں حکومت کارروائی کرے گی یہ علاقے کا مسئلہ ہے لوگ قتل ہوئے ہیں ہم نے بھی ایسی صورتحال دیکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ امن قائم ہو۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ سردار یار محمد رند کے حکومت سے اور بھی گلے شکوے ہیں سے ان بیٹھ کر بات کی جائے اور ایک کمیٹی قائم کی جائے سردار یار محمد رند سے گزارش ہے کہ وہ دھرناموخر کردیں اگر حکومت انصاف نہیں کرتی تو وہ دوبارہ دھرنا دے سکتے ہیں۔ اے این پی کے اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ اس بات کی کوئی منطق نہیں کہ سردار یار محمد رند نشاندہی کریں حکومت کی رٹ کہاں ہے؟یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطلوب ملزمان کو عدالت میں حاضر کرے۔بطور رکن سردار یار محمد رند سے گزارش ہے کہ انہوں نے اپنا جمہوری احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اب وہ دھرناختم کردیں۔ ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے اس موقع پر رولنگ دیتے ہوئے میر نصیب اللہ مری، ملک نعیم بازئی، قادر علی نائل، اختر حسین لانگو، ثناء بلوچ اور حمل کلمتی پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی جو سردار یار محمد رند اور دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کرے گی اس موقع پر سردار یار محمد رند نے کہا کہ کمیٹی وزیراعلیٰ سے اختیار لے کر آئے ہم انہیں احترام دینے کو تیار ہیں جس پر ڈپٹی سپیکرنے کمیٹی کو فوری طو رپر وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے اور سردار یار محمد رند سے مذاکرات کرنے کی ہدایت کی۔