سانحہ موٹروے
اعجاز علی جاکھرانی
بھارتی رہنماء موہن داس کرم چند گاندھی نے بھارت کی آزادی کے بعد کہا تھا کہ میں بھارت کو اس وقت آزاد سمجھوں گا جب میرے دیش کی ناری آدھی رات کو بھارت کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں اکیلی خیرخیریت سے جائے گی اور خیر خیریت سے واپس آئے گی،موہن داس کرم چند گاندھی کے یہ الفاظ بھارت کیلئے تھے ۔
آئیں ہم اپنے دیش پاکستان کی بات کرتے ہیں،رات 12 بجے کے بعد اپنے بچوں کو لیے براستہ موٹروے لاہور سے گوجرانوالہ جانیوالی کیلئے جانیوالی خاتون کو دو افراد نے اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ،اس واقعے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
پاکستان میں اسطرح کے بڑھتے ہوئے واقعات نے پاکستانی عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے، موٹروے ریپ کیس کو مختلف زاویوں سے دیکھیں گے تاکہ سارے پہلو زیربحث لائے جاسکیں سب سے پہلے تو ہم بات کریں گے اس خاتون کیساتھ جو فرانس رہتی تھی اور وہاں کی شہریت رکھتی تھی وہ اپنے بچوں کو لیکر اس وجہ سے پاکستان آئیں تاکہ اس کے بچے اسلامی کلچر میں پروان چڑھیں اور اسلام کے عین مطابق زندگی گزار سکیں لیکن انہی بچوں کے سامنے انکی ماں کی عزت تار تار کردی گئی ۔
موقع پر پہنچنے والے کچھ دوستوں نے بتایا کہ جب ہم موقع پر پہنچے تو خاتون کی حالت غیر تھی وہ آنیوالے افسران کو بار بار کہنے لگی کہ مجھے گولی مار دیں میں جینا نہیں چاہتی جب اسکی یہ بات نہ مانی گئی تو اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ یہاں پر موجود تمام افراد حلف دیں کہ یہ بات لیک نہیں کریں گے میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتی چنانچہ ایک افسر نے اس خاتون کو یقین دہانی کرائی کہ یہ بات لیک نہیں کی جائے گی۔اس خاتون کی حالت اس قدر خراب تھی کہ ان کی تصویریں لینا بھی ممکن نہ تھا اس دوران اگر مزید اس واقعہ کی تفصیل میں جائیں تو بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں ۔
پہلے پہل تو یہ کہ اس خاتون کو ایسی کیا جلدی تھی کہ وہ آدھی رات کو وہاں سے نکلیں یہ بات سی سی پی او لاہور نے بھی کہی ہے دوسرا یہ کہ جب وہ وہاں سے نکلیں تو کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی گاڑی میں پیٹرول نہیں ہے؟کیا اس کے پیچھے کوئی اور مقاصد تھے؟جب گاڑی کا پیٹرول ختم ہوا تو خاتون نے سب سے پہلے اپنے رشتہ دار کو کال کی اس نے پولیس کو کال کرنے کو کہا لہٰذا اس خاتون نے پہلے موٹروے پولیس کو کال کی اور پھر پنجاب پولیس کے ریسکیو نمبر 15 پر کال کی اس دوران وہاں سے ایک پرائیویٹ نمبر دیا گیا اور اس پر کال کرنے کو کہا گیا لہٰذا خاتون نے اس نمبر پر کال کی۔
اس کال کے کچھ دیر بعد یہ واقعہ رونما ھوگیا،یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ہر ٹی وی کی اسکرین پر اس واقعے کا ذکر تھا اس دوران وزیراعظم عمران خان اور وزیراعظم پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیا اور نئے آئی جی پنجاب انعام غنی کو اس کا ٹاسک سونپ دیا ۔
یہ کیس انعام غنی کیلئے ٹیسٹ کیس تھا، اس دوران سی سی پی او لاھور عمر شیخ نے اس واقعے کے حوالے سے میڈیا پر گفتگو کی اور کہا کہ اس خاتون کو موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ استعمال کرنا چاہیے تھا اور اکیلی خاتون کو سفر نہیں کرنا چاہیے تھا ان کے اس وقت کے بیان کو میڈیا نے بہت زیادہ اچھالا ۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے سی سی پی او عمر شیخ کو فوری طور پر معطل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں عہدے سے ہٹایا جائے۔سی سی پی او کو بھی ہٹانے کے پیچھے کچھ محرکات تھے۔ سی سی پی او لاہور نے کچھ دن سے مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا تھا ،بلاتفریق پکڑ دھکڑ جاری تھی ،اس میں مسلم لیگ ن کے بہت سے ورکرز قانون کے شکنجے میں پھنس رہے تھے لہٰذا ن لیگ ہر حال میں سی سی پی او کو ہٹانا چاہتی تھی کیونکہ عمرشیخ کے ہوتے ہوئے ان کی دال نہیں گل رہی تھی۔
لاہور موٹروے کے واقعے کے بعد پنجاب پولیس نے اس علاقے کی جیو فینسنگ کرتے ہوئے 28 ٹیمیں تشکیل دیں اور ہر زاویے سے واقعے کی جانچ پڑتال کی جانے لگی ،بالاخر پنجاب پولیس کو کامیابی مل گئی اور اس واقعے کے مرکزی ملزم کا ڈی این اے میچ کرگیا۔
مرکزی ملزم عابدعلی عادی مجرم نکلا اس کا کریکٹر خراب نکلا ,2013 سے لیکر 2017 تک عابدعلی پر ڈکیتی اور ریپ کے 8 مقدمات درج ہوچکے تھے ،اس نے ایک ماں بیٹی کا بھی ریپ کیا تھا مگر ضمانت پر رہا ہوگیا اسکے ساتھ دوسرا ملزم وقارالحسن نامی شخص تھا جسکی نشاندہی جیو فینسنگ کے ذریعے ھوئی۔
وزیراعلیٰ پنجاب، وزیرقانون اور آئی جی پنجاب نے مشترکہ پریس کانفرنس کی دونوں ملزمان کے حوالے سے قوم کو آگاہ کیا۔ ان کے خاکے بھی جاری کیے گئے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ان کو پکڑوانے والوں کیلئے 25,25 لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا۔اس دوران اپوزیشن کے سی سی پی او پر وار جاری رہے۔
پوری کہانی کا رخ تب بدلا جب وقار الحسن نے خود کو پولیس کے سامنے پیش کردیا اور کہا کہ میں بےقصور ہوں میری سم میرا سالا عباس استعمال کرتا ہے وہی عابد کیساتھ ملا ہوا ہے۔دوسری طرف پنجاب پولیس نے وقارالحسن کے بھائی اور باپ کو گرفتار کرلیا جبکہ پولیس نے جب عابدعلی کے گھر ریڈ کیا تو وہ پہلے ہی اپنی بیوی کیساتھ فرار ہوچکا تھا البتہ وہ اپنی بیٹی کو وہیں چھوڑ گیا۔
پولیس کی جانب سے سرچنگ کے جدید طریقے استعمال کیے جارہے ہیں تاحال ملزمان کی گرفتاری نہیں ہوسکی۔پولیس جلد ہی موسٹ وانٹڈ ملزمان کو گرفتار کرلےگی وہ پولیس کے شکنجے سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔
پورے ملک میں جزاء و سزا کے عمل کو یقینی بنانا ھوگا جب تک ایسے عناصر کو سرعام سزائیں نہیں دی جاتیں تب تک ان واقعات میں کمی نہیں آئے گی۔دوسرا پولیس کا محکمہ ختم کردینا چاہئے یا پھر اس کو مکمل طور پر غیر سیاسی بنانا ھوگا اور اسکی بطور ادارہ ازسرنو تشکیل ضروری ہے۔اس وقت پورے ملک میں ایک افراتفری کا سا سماں ہے حکومت کچھ کہتی ہے جبکہ اپوزیشن کا بیانیہ کچھ ہے اس وقت کرسی اور نسل کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اس قسم کی سیاست کو ترک کرنا ھوگا اور پاکستان کیلئے فیصلے کرنے ھوں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہم اداروں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کریں گے اور تمام اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کریں گے خان صاحب تاحال ایسا کرنے میں ناکام نظر آئے ہیں ادارے مزید تباہی کی طرف جارہے ہیں، کرپشن پہلے منظم تھی اب سرعام ہے جو کام پہلے 5000 میں ہوجاتا تھا اب وہی کام 50000 میں ہورہا ہے، مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ۔
دکاندار عمران خان اور تحریک انصاف کی برائی کرکے اشیاء مہنگی بیچ رہے ہیں ،کہیں بھی حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی،اس ملک میں پارلیمانی نظام بالکل فیل ہوچکا ہے لہٰذا صدارتی نظام ناگزیر ہے۔اس ملک کے پالیسی میکرز کو سوچنا ھوگا اور عام آدمی کی زندگی بہتر بنانی ھوگی ورنہ عوامی سمندر سب کچھ بہا کر لے جائے گا ابھی بھی وقت ہے تحریک انصاف اور عمران خان کو سخت فیصلے لینے ھوں گے ورنہ آپ بھی ماضی ھوجائیں گے ۔
اس ملک کو قائد کا پاکستان بنائیں اس ملک کو حقیقی طور پر ریاست مدینہ بناکر جائیں تاکہ جب بھی پاکستان کی ترقی اور اس قوم کی خوشحالی کی بات ھوتو آپ کا نام جلی حروف میں نظر آئے، خدارا اداروں میں اصلاحات لے آئیں اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں تاکہ ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے یہ ملک ہمیشہ رہے گا ہم اور آپ آتے جاتے رہیں گے کیوں نہ ہم بھی اس ملک کیساتھ صدیوں زندہ اور قائم رہیں۔
گجرپورہ سانحہ بظاہر جو نظر آرہا ہے مبینہ طور پر اس میں اندرونی اور بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کا خدشہ ہے، سب سے پہلے متاثرہ خاتون اور انکے رشتہ دار کے موبائل فونز قبضے میں لینے چاہئیں اور اس کیس کو مختلف اینگلز سے دیکھا جائے کہ کہیں یہ سب پری پلان تو نہیں ہے بظاہر ایسا نظر نہیں آرہا لیکن اس ریاست کو بدنام کرنے کیلئے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی کمی نہیں ہے لہٰذا کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جو بھی اس واقعے میں ملوث ہیں وہ اپنے کیفرکردار کو پہنچیں گے لیکن آئندہ کیلئے تبدیلی سرکار کو ٹھوس پلاننگ کرنی ہوگی تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچاسکے۔