ہمیں تو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ اپنا مدعا بیان کر سکیں،سرداراختر جان مینگل

لاہور (ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہاہے کہ ہمارے قبائلی سسٹم میں بھی جرگے ہوتے ہیں تو پہلے مدعا بتاتے ہیں، ہمیں تو ابھی تک یہ حق ہی نہیں کہ اپنا مدعا بیان کر سکیں،بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اگر کوئی بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے وہ سیاسی ہاتھوں سے ہوگا اور نہ ہی ریاست کی بندو ق سے حل ہوگا اور نہ ہی ریاست کی توپوں سے حل ہوگا سیاسی بنیادوں پر سیاسی لوگ مل کر کرسکتے ہیں نہ کہ سٹیبلشمنٹ کرسکتا ہے1947سے بلوچستان کو سٹیبلشمنٹ کی گود میں رکھ دیا ہے یہ سٹیبلشمنٹ عربیوں کا وہ اونٹ ہے جس کو اگر سر رکھنے کی جگہ مل جائے تو وہ مالک کو تمبو سے باہر نکالے گا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں قوم پرست جماعتوں سے مذاکرات کے موضوع پر ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا۔سرداراخترجان مینگل نے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی سنا جا رہا تھا کہ بی این پی کو مشکل سے ایک سیٹ دی جائے گی، نوٹر ڈیم نے بھی یہ پیش گوئیاں نہیں کی ہوں گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ بات کی جائے تو کس سے؟ یہیں آئین کی بحالی کی تحریکیں، عدلیہ کی آزادی کی تحریکیں چلی ہیں، یہیں صوبوں کی خود مختاری اور پارلیمنٹ کو خود مختار بنانے کی تحریکیں چلی ہیں۔سرداراختر مینگل نے کہا کہ یہاں میڈیا کی آزادی کے لیے بھی تحریکیں چلی ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اگر کوئی بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے وہ سیاسی ہاتھوں سے ہوگا اور نہ ہی ریاست کی بندو ق سے حل ہوگا اور نہ ہی ریاست کی توپوں سے حل ہوگا سیاسی بنیادوں پر سیاسی لوگ مل کر کرسکتے ہیں نہ کہ سٹیبلشمنٹ کرسکتا ہے ہمارا تجربہ ہوا تھا جب پی ٹی آئی نے ہمارے نکات پر دستخط بھی کردیے بعد میں بے اختیار ہوکر پیچھے ہٹ گئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک غیر ممنوعہ علاقہ ہے اس میں کسی بھی سیاسی مداخلت کی اجازت نہیں ہے ہر سیاسی پارٹی نے اپنی اقتدار کی کرسی بچانے اور مدت کی وسعت دینے کیلئے انہوں نے بلوچستان کے حقوق کی قربانی دینے میں گریز نہیں کیا ہے پی ٹی آئی کی دور حکومت میں ایک بلوچستان کے مسائل پر ایک کمیٹی بنائی گئی اس کمیٹی کا اجلاس ہوا ہی نہیں اور ایوان بالا میں لاپتہ افراد کا بل جو غائب تھ اہم نے ان عقوبت خانوں سے نکال کر لائے اور پی ڈی ایم حکومت کو تما دیا اس میں ایسی ترامیم لائی گئی تھی جس میں ایک شک تھی کہ غلط انفارمیشن دینے پر سات سال سزا دی جائے گی ایک تو پہلے سے یہ تلوار ہم پر لٹک رہی ہے اگر اس شِق کو ڈالتے تو آج دو دہاری تلوار ہوجاتی ہماری احتجاج پر وہ نقطہ نکال دیا گیا بلوچستان کے مسئلہ کو نا میرے چاچا کے بیٹے ہو اور نہ ہی ان کے مامے کے بیٹے سے حل کیا جائے بلکہ ان لوگوں کو لایا جائے جو بے اختیار نہیں با اختیار ہو انہوں نے کہا کہ 1947سے بلوچستان کو سٹیبلشمنٹ کی گود میں رکھ دیا ہے یہ؎ سٹیبلشمنٹ عربیوں کا وہ اونٹ ہے جس کو اگر سر رکھنے کی جگہ مل جائے تو وہ مالک کو تمبو سے باہر نکالے گا بلوچستان کے ساتھ اسی طرح ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں کونسا ملک کا ادار ہ عدلیہ میڈیا بلکہ میاں بیوی کے معاملات میں بھی سٹیبلمشنٹ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے