طلبہ یونین بحالی مارچ 2020ء
اویس قرنی
اس سال طلبہ یونین بحالی مارچ کی ملک گیر سرگرمیاں 27 نومبر 2020ء بروز جمعہ متوقع ہیں۔ 23نومبر کو وفاقی وزیر برائے تعلیم نے کورونا وبا کی دوسری اور نسبتاً شدید لہر کے پیش نظرملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں 26 نومبر سے ایک ماہ کی چھٹیوں کا اعلان کردیا ہے۔ حالیہ طلبہ یونین بحالی کی سرگرمیاں گزشتہ دو سالوں کے مارچوں کا تسلسل ہیں۔ لیکن اس سال کی سرگرمیاں کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہیں۔ گزشتہ برس کے مارچ نے طاقت کے ایوانوں پہ لرزہ طاری کردیا تھا۔ 55 سے زائد شہروں میں ہونے والے مارچوں کا اولین مطالبہ طلبہ یونین پر گزشتہ 36 سال سے عائد پابندی کا خاتمہ تھا۔ طلبہ نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ چنانچہ حکومتی ایوانوں سے بھی طلبہ یونین کو نوجوانوں کا آئینی اور قانونی حق تسلیم کیا گیا۔ بیشتر صوبائی اسمبلیوں میں طلبہ یونین پر عائد پابندی کے خلاف بِل پیش ہوئے۔ لیکن روایتی سیاسی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ یونین کی پوری بحث کو ”کوڈ آف کنڈکٹ“ میں الجھا دیا گیا۔ پھر کورونا وبا کی آڑ میں اس ساری بحث کو ہی منظر عام سے غائب کر دیا گیا۔ جبکہ اسی عرصے میں طلبہ پر جبر کے نت نئے پہاڑ توڑے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ کو آدھا کر دیا گیا۔ بغیر سہولیات اور انفراسٹرکچر کے آن لائن تعلیم مسلط کی گئی۔ کلاسوں کے تعطل کے باوجود فیسیں نہ صرف جبری طور پر وصول کی گئیں بلکہ ان میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ طالبات کی جنسی ہراسانی کے گھناؤنے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا۔ دور دراز کے پچھڑے ہوئے علاقوں سے شہروں کو آنے والے تعلیم کے خواہاں نوجوانوں کے وظیفے ختم کر دئیے گئے۔ میڈیکل کے طلبہ کے کورس اور طریقہ کار کو بہ یک جنبش قلم یکسر بدل دیا گیا۔ اور تاحال ان طلبہ دشمن اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن اس جبر کے خلاف لڑائی بھی زیادہ تیز ہوئی ہے۔ پاکستان جیسے خستہ حال انفراسٹرکچر میں آن لائن ایجوکیشن کے خلاف طلبا و طالبات نے ایک دلیرانہ لڑائی لڑی اور کسی حد تک فتحیاب بھی ہوئے۔ اسی طرح جنسی ہراسانی کے خلاف بلوچستان سے لے کر پشاور اور گلگت تک کے طلبا و طالبات نے یونیورسٹیوں میں بے باک احتجاجی مظاہرے کیے۔ وظیفوں اور مختص سیٹوں کے خاتمے کے خلاف بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے نوجوانوں نے سینکڑوں میل کے پیدل مارچ کیے اور اپنا حق چھین لیا۔ میڈیکل کے طلبہ بھی جبری احکامات کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں۔ ان تمام تر طلبہ دشمن ہتھکنڈوں کے خلاف نوجوانوں کا ردعمل سماجی بے چینی کو آشکار کر رہا ہے۔ اس لئے اس سال کے طلبہ یونین بحالی کی سرگرمیاں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہیں۔
گزشتہ برس طلبہ تحریک میں ایک بڑی کامیابی ملک گیر سطح کی ’سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی‘ کا قیام عمل میں آنا تھا۔ اس کے بعد مختلف شہروں میں ذیلی سطح پر بھی ایسی کمیٹیاں تشکیل پائیں۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل اقدام تھا۔ جس کی جڑیں ہمیں 1968ء کی تاریخ ساز طلبہ و مزدور تحریک میں ملتی ہیں۔ پھر ایوب آمریت کے دھڑن تختے سے لے کر ضیائی آمریت کے خلاف جاں فشاں لڑائیوں تک کی ایک پوری تاریخ ہے۔ حتیٰ کہ طلبہ تنظیموں اور ان پر مشتمل ترقی پسند طلبہ اتحادوں اور فرنٹوں کے خوف نے وقت کے جابر آمر کو طلبہ یونین پر ہی پابندی جیسے بزدلانہ اقدامات پر مجبور کر دیا۔ لیکن آمریت کی مسلط کردہ اس پابندی کو بعد میں آنے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بھی نہ صرف جاری رکھا بلکہ طلبہ کو غیر سیاسی، غیر پیداواری اور رجعتی سرگرمیوں میں غرق کر نے کے مجرمانہ اقدامات کیے۔ لیکن پھرطلبہ یونین پر پابندی کے باجود 2007ء میں بھی مشرف آمریت کے خلاف سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی ایک ناقابل فراموش جدوجہد رہی ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ اُس وقت سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے اجلاس موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے زمان پارک لاہور والے گھر میں ہوا کرتے تھے۔ یہاں ہر حاکم نے اپنے اپوزیشن کے ادوار میں طلبہ کی طاقت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے اور پھر حکومت میں آنے کے بعد زہر آلود خنجر سے سب سے پہلا وار بھی انہی پہ کیا ہے۔
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیوں کی میراث کسی ایک عہد یا شہر یا ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ بالعموم پوری دنیا میں ظلم و استحصال کے خلاف برسرپیکار انقلابی طلبہ و نوجوانوں کی جدوجہد اور خصوصاً گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط پاکستان کی طلبہ تحریک کی تاریخ، جدوجہد اور قربانیاں اس میراث میں شامل ہیں۔ موجودہ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا کئی معروضی و ثقافتی چیلنجوں کے باوجود ایک ڈھانچہ استوار کرنا یقینا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ یہ خطہ تاریخی اعتبار سے کئی ثقافتوں کا سنگم رہا ہے۔ اور ان میں سے کئی ایک کی تاریخ تو خود انسانی تہذیب کے ظہور اور وجود سے جڑی ہے۔ اس لئے جمہوری ڈھانچوں کی استواری کسی بھی تحریک میں فیصلہ کن کردار کی حامل بن جاتی ہے۔ مختلف ترقی پسند طلبہ تنظیموں پر مشتمل شہری سطح کی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیوں کا قیام جہاں وقت کی اہم ضرورت کے طور آشکار ہوا ہے وہیں ان کمیٹیوں کے قیام نے 27 نومبر کی سرگرمیوں کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے صلاحیت بھی حاصل کی ہے۔ مستقبل کی لڑائیوں میں بھی ان کا کردار لازوال اہمیت کا حامل رہے گا۔
اس سال کا سب سے بڑا چیلنج کورونا وبا ہے۔ جدوجہد کے راستے میں قربانیاں یقیناناگزیر ہوتی ہیں لیکن لڑائی کی منصوبہ بندی اور ترجیحات کسی بھی جدوجہد کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہیں۔ اور اس ضمن میں ہمیں اس صورتحال کا باریک بینی اور دور اندیشی سے تجزیہ و تناظر تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ 27 نومبر کی سرگرمی کے فیصلے کے دوران بھی یہ نکات زیر بحث آئے تھے۔ ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘ (RSF) کے ساتھیوں نے واضح انداز میں یہ حکمت عملی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کو پیش کی تھی کہ ہمیں کورونا وبا اور ریاستی لاک ڈاؤن کے تناظر میں اپنی سرگرمیوں کو مرتب کرنا ہو گا۔ لیکن سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی میں شامل بیشتر نمائندگان اس مارچ کو کسی اور انداز میں دیکھ رہے تھے اور آر ایس ایف نے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی رائے دوسروں پر تھونپنے کی بجائے ساتھیوں کے سیکھنے کے عمل کے حق کو تسلیم کیا۔ اب اسباق حاصل کرنے کا وقت ہے۔ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کو اپناتے ہوئے ہی ہم مستقبل میں ان غلطیوں کا ازالہ کر سکیں گے۔ ورنہ جو غلطیوں کو دہراتے رہتے ہیں وہ تاریخ کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کی ایک ماہ کی بندش کے پیش نظر بیشتر طلبا اور خصوصاًطالبات اپنے گھروں کو جانے پر مجبور ہوں گے۔ ایک طرف تو ان سے ہاسٹلوں میں رہائش کی سہولیات چھن جائیں گی تو دوسری طرف معاشی مشکلات اتنی تلخ ہوگئی ہیں کہ خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات عام انسانوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ جس کا ناگزیر نتیجہ پھر طلبہ کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کی شکل میں نکلے گا۔ ایسے میں 27 نومبر کی سرگرمیوں کا فوری ہدف بغیر سہولیات کے آن لائن ایجوکیشن جیسے طلبہ دشمن اقدامات ہونے چاہئیں جس کے خلاف آنے والے دنوں میں طلبہ کا دوبارہ ردعمل متوقع ہے۔ اسی طرح ان نسبتاً محدود سرگرمیوں کو آئندہ کی تیاری کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ صورتحال کے معمول میں آنے تک طلبہ کی سیاسی تعلیم، تربیت و نشونما کا بنیادی فریضہ اداکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔گزشتہ برس کے مارچ سے طلبہ یونین یقینا عوامی بحث کا موضوع ضرور بنی لیکن ابھی بھی بیشتر کام رہتا ہے اور طلبہ کی وسیع پرتیں تاحال طلبہ یونین کی افادیت سے لاعلم ہے۔ حتیٰ کہ طلبہ یونین اور طلبہ تنظیموں میں فرق واضح کرنے کی ضرورت بھی تاحال موجود ہے۔ اسی لئے ان موضوعات پر زیادہ سے زیادہ لکھنے اور پراپیگنڈہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مقاصد کے لئے سوشل میڈیا جیسے ذرائع کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس عرصے کو سیمیناروں اور سٹڈی سرکلوں کی صورت میں نوجوانوں کی کیڈر بلڈنگ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان سرگرمیوں کے ذریعے نوجوان طلبا و طالبات کی اجتماعی قیادت کو تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ افراد اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود اجتماعیت کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ یہ اجتماعی اور اشتراکی قیادت ہی ہوتی ہے جو افراد کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کاموجب بنتی ہے۔ یہ سیاسی تربیت ہی نوجوانوں میں اعتماد کا باعث بنے گی۔ اور یہی اعتماد نوجوانوں کو دیوہیکل جبر سے ٹکرانے کی شکتی دے گا۔ پھر حالات کے مطابق طلبہ یونین بحالی کے لئے اجلاس ملک کے کلیدی شہروں میں منعقد کرتے ہوئے آگے کی لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔ جو صرف لفاظی یا نعرہ بازی تک محدود نہیں ہوگی بلکہ ہر باشعور طالب علم طلبہ تحریک کے ماضی، طلبہ یونین کی افادیت اور سب سے بڑھ کر آج کے عہد کی مناسبت سے طلبہ یونین کے خدوخال سے واقفیت پر مکمل دسترس کے ساتھ میدان عمل میں اترے گا۔ایسے طلبہ حکومتی ڈھکوسلوں پر مبنی جھوٹے وعدوں سے ٹلیں گے نہیں بلکہ طلبہ یونین کا حق چھین کر لیں گے۔