گوادر بلوچوں کا مگر اختیار کسی اور کے پاس ہے،امیر حیدر خان ہوتی
کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر و رکن قومی اسمبلی امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ انتہائی پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی نے اس خطے کو سب سے زیادہ متاثرکیا ہے، ایک ڈکٹیٹر کی رخصتی، عدلیہ کی آزادی اور ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک میں سب سے نمایاں کردار بلوچستان کے وکلاء نے ادا کیا تھا، سب کو معلوم ہے کہ نیب قوانین پارٹیوں کو توڑنے اور مرضی کے پارٹیاں بنانے کے لئے کس قدر استعمال ہوتے رہے ہیں، 2008سے 2018تک نیب قوانین میں ترمیم کے لئے سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہیں کیا، مغربی چائنا کی محرومیوں کو دور کرنے کے لئے چائنا نے کوریڈور اور پورٹ بنانے کو ترجیح دی جبکہ پاکستان میں خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کی محرومیوں اور محکومی کو دور کرنے کی بجائے سی پیک کے اکثر منصوبے پنجاب میں شروع کئے گئے ہیں، لاپتہ افراد کامسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کرکے کارروائی کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ میں ہائی کورٹ بار روم میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان،اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی،صوبائی جنرل سیکرٹری مابت کاکا، صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی سمیت وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھیں۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ بار ا یسوسی ایشن صرف وکلاء کی ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے شہداء کی نمائندگی کررہی ہے جو بلوچستان بار ایسوسی ایشن اور صوبے کے دیگر وکلاء تنظیموں کے لئے ایک اعزاز ہے۔ بلوچستان کے وکلاء کی جدوجہد اور قربانیوں سے ہم سب واقف ہیں،میں جب 5سال خیبر پشتونخوا کا وزیراعلیٰ تھا اس وقت بھی یہی کہتا رہا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ ایک ڈکٹیٹر کی رخصتی، عدلیہ کی آزادی اور ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت کی بحالی میں سب سے اہم کردار وکلاء کا تھا اس تحریک میں سندھ، پنجاب، خیبر پشتونخوا نے جدوجہد ضروری کی مگر سب سے نمایاں کردار بلوچستان کے وکلاء تھا۔ انتہائی پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی نے اس خطے کو سب سے زیادہ متاثرکیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب روس افغانستان میں داخل ہوا اس وقت کمیونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان کولڈ وار اعظیم عروج پر تھی، امریکہ کو افغانستان کی سرزمین پر روس کو شکست دینے کا موقع ملا، امریکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ اس خطے میں روس کا اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے اس وقت ہمارے اکابرین نے جب اسے امریکہ اور روس کا جنگ قرار دیا تو انہیں روس کے ایجنٹ اور غدار کہا گیا۔ انہوں نے کہاکہ سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مالاکنڈ اور سوات میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی اور ایک خوف کے ماحول میں 2008کے انتخابات ہوئے اس کے بعد میں نے سوات کے مشران پر مشتمل جرگے سے ملنا چاہا اور 80تک مشران کو دعوت دی ان میں سے صرف 8سے 10وہ ملنے کے لئے آئے جو اے این پی سے بلاواسطہ یا بالواسطہ منسلک تھے۔ ہم نے ایسے حالات میں مذاکرات کا راستہ اپنایا جب ان علاقوں میں پولیس کو گشت کرنے اور ہماری بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس وقت معاہدہ ہوا معاہدے کے بعد ہم پر تنقید بھی ہوتی رہی اور بعد میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جاتی رہی اور جب ہم نے کارروائی شروع کی تو ہمیں یہ ایڈوانٹیج ملا کہ مالاکنڈ کے لوگوں کو اصل حقیقت کا پتہ چل چکا تھا اور انہوں نے ہم میں سپورٹ کیا۔ سب کو معلوم ہے اس دوران 25لاکھ افراد نقل مکانی کرگئے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سے انتہاء پسندی، عسکر پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ تب ممکن ہے جب ملک کے تمام ادارے ایک پیج پر ہو کر ملکی عوام کی حمایت سے سٹریٹیجی ترتیب دے اور ہم افغانستان کے دشمن کو اپنا دشمن اور افغانستان پاکستان کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھے اور دونوں ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر آج تک عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا ہے اسی لئے آج بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ سی پیک سے ہمیں لوگوں کی محرومیوں کا خاتمے کا بہترین موقع ملا مگر اسے گنوا دیاگیا۔ مغربی چائنا میں لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا تھا چین نے وہاں کے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کوریڈور بنانے اور وہاں بندگاہ بنانے کا فیصلہ کیا، چائنا کی سٹرٹیجی محکوم اور محرومیوں کے شکار علاقوں کو ترجیح دینا ہے اور ہماری سٹریٹیجی اس سے یکسر مختلف ہے ہم نے ڈیویلپڈ ایریاز کو مزید ڈویلپڈ اور پسماندہ علاقوں کو مزید نظرانداز کیا۔ ہم ملک کے ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے خلاف نہیں مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر وہاں پر موٹرویز، انڈسٹریل زونز بنانے تھے، نئے ریلوے ٹریکس بچھانے تھے اس سے پہلے پشاور سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان اور وہاں سے ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، کوئٹہ اور پھر گوادر تک شاہراہیں بھی بنالیتے اس سے پاکستان مضبوط ہوتا۔ گوادر کے حوالے سے گزشتہ روز جو معلومات ملی وہ افسوسناک ہے گوادر بلوچوں کا مگر اختیار کسی اور کے پاس ہے تجارت ہورہی ہے بندرگاہ یہاں پر ہے مگر اس کا فائدہ یہاں کے لوگوں کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بیشک ان سے پورے ملک کو فائدہ پہنچے لیکن سب سے پہلے اس سے بلوچستان کو مستفید ہونا چاہیے۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ این ایف سی اور اٹھارویں ترمیم سے متعلق کچھ عرصے سے یہ کہا جارہاہے کہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے مرکز کے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور اسے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ این ایف سی ایوارڈ پر دستخط گوادر میں ہوئے، این ایف سی میں مرکز کا حصہ کم اور صوبوں کا حصہ بڑھا اس وقت ہم نے مطالبہ کیا کہ خیبر پشتونخوا جنگ سے متاثر صوبہ ہے ہمیں زیادہ ریسورسز دیئے جائیں جس پر بلوچستان نے ہماری حمایت کی تھی جبکہ بلوچستان نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ محروم صوبہ ہے اسے اپنے وسائل نہیں ملے اس لئے ہمارے حصہ نہ صرف بڑھایا جائے بلکہ اسے تحفظ بھی دی جائے تاکہ بوقت ضرورت بلوچستان کے حصے میں کٹوتی نہ ہو، اس وقت ہم نے بھی یہ کہا تھا کہ جب تک بلوچستان کے حصے کو بڑھایا نہیں جاتا اور بلوچستان اس معاہدے پر ستخط نہیں کرتا اس وقت تک ہم اس ایگریمنٹ پر دستخط نہیں کریں گے۔ اٹھارویں ترمیم تو این ایف سی کے بعد آیا اب جو بھی این ایف سی آئے گا تو اس میں صوبوں کے حصے کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارا اب یہ مشترکہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ اگلی این ایف سی میں مرکز کا حصہ مزید کم اور صوبوں کا حصہ مزید بڑھایا جائے تاکہ صوبے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی پورا کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے قانون کے مطابق ایف آئی اے، پولیس اور سی ڈی ٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں وہ بھی ایسا نہیں کرسکتے کہ وہ کسی کو اپنے ساتھ رکھے اور عدالت میں پیش نہ کرے۔ میں آج اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں کہ جب ہم لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات کرنا پسند نہیں کرتے، یہ مسئلہ تب حل ہوگا کہ جب برسراقتدار طبقہ لاپتہ افرادکے مسئلے کو اسی اتنی ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے جتنا میں اس پلیٹ فارم پر کھڑا ہو کر کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد میں سے اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو کوئی اس کے خلاف کارروائی سے روکنے کا نہیں کہہ رہا سب کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ سب کو پتہ ہے کہ انسداد دہشت گردی قوانین میں کتنی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، جب تک قانون پر عمل درآمد نہیں ہوگا اور لوگوں کو قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا اس وقت تک نہ صرف اعتراضات اٹھیں گے بلکہ ریاست اور لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلے مزید بڑھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ملٹری کورٹس کا کڑوا گھونٹ ہم نے اس لئے پیا کہ ہمیں بتایا گیا کہ آپ کے عدالتی نظام میں کچھ خامیاں ہیں ان خامیوں کو جب تک دورنہیں کیا جاتا اس وقت تک ملٹری کورٹس کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم انسداد دہشت گری قوانین و دیگر میں کوئی بہتری نہیں لائی جس کے ذمہ دار پچھلی حکمرانوں سمیت موجودہ حکمران بھی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خواجہ سعد رفیق کے ضمانت کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف اور صرف مشاہدہ پر مبنی تھا آج حالات یہ ہے کہ عدالتوں کے فیصلے صرف مشاہدوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ نیب قوانین جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئے ہم سب نے دیکھا کہ سیاسی پارٹیوں کو توڑنے اور پسند کی پارٹیوں کو بنانے کے لئے ان کا کس طرح استعمال ہوا ہے جب نیب کے قانون کا غلط استعمال ہورہا ہو ہم اس کی مذمت تو کرتے ہیں مگر 2008سے 2018تک ہم نے بھی ان قوانین میں ترمیم کے لئے کچھ نہیں کیا جو کہ ہونے چاہیے تھے۔انہوں نے کہاکہ آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے کیا ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ عدلیہ پر بھی پریشر ہے ہم اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو سول سوسائٹی کو تو اخلاقی طور پر سپورٹ تو کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں نے گزشتہ روز جلسے میں بھی یہ کہا تھا کہ ایک نیا چارٹر لانا چاہیے اس میں جتنے بھی اہم معاملات حکومت، ریاست، معاشرے، وفاق، صوبوں، اداروں کے ہیں وہ سب اس چارٹر میں شامل ہونے چاہیے اور ہم تب تک کسی کو کندھا نہیں دیں گے جب تک اس چارٹر میں ان تمام مسائل کا حل تحریر نہ ہو اور ہم سب ان کو اپناتے نہیں، گزشتہ روز جلسے میں میری بات کا ایک حصہ کاٹ کر صرف یہ لکھا گیا کہ ہم کسی کو کندھا نہیں دیں گے اگر ہم پی ڈی ایم کو کندھا نہیں دیں گے تو کیا کپتان صاحب کو کندھا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پچھلے 2سالوں میں جو رول ہمارا ہونا چاہیے تھا ہم نے ادا نہیں کیا، پچھلے دو سالوں میں ہم تقسیم رہے مگر یہ وقت اختلافات کا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں صاف شفاف انتخابات ہو اور اس میں کسی قسم کی کوئی مداخلت شامل نہیں ہونی چاہیے اور پولنگ اسٹیشن کے اندر و باہر سول لاء انفورسمنٹ کے اہلکاروں کے علاوہ اور کسی کی موجودگی نہیں ہونی چاہیے۔