چارٹر آف ڈیمانڈ؛ پاکستان، بھارت اور نیپال کی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کا حکومت سے عملدرآمد کا مطالبہ

کراچی (ڈیلی گرین گوادر) نیپال، بھارت اور پاکستان سے متعلق رکھنے والی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز (سی ایچ ڈبلیو) کی جانب سے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈز میں حکومتوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ بطورکارکن ان کے حقوق کو احترام، تحفظ اور فروغ دے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقد پریس کانفرنس میں نیپال، بھارت اور پاکستان کی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور تینوں ممالک کی نمائندہ خواتین نے صحت عامہ کی خواتین کارکنوں کو درپیش چیلنجز سرکاری شناخت، منصافہ اجرت اور مراعات سے متعلق اپنے مشاہدات اور تجربات کا اظہار کیا۔ لائیو پریس کانفرنس میں تینوں ممالک سے صحافیوں نے آن لائن شرکت کی

گلوبل یونین فیڈریشن، پبلک سروسز انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے چارٹر آف ڈیمانڈ کی حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو ملازم نہیں سمجھا جاتا اور ان کو وہ بنیادی فوائد بھی حاصل نہیں جو پبلک سیکٹر کے ملازمین کے لیے ہیں جیسے کہ زچگی کی چھٹی، بیماری کی چھٹی، اوور ٹائم کی ادائیگی، پنشن وغیرہ اور زیادہ تر معاملات میں انہیں اجرت دینے سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے جبکہ متعدد مقامات پر انہیں اعزا زیہ اور مراعات بھی نہیں ملتیں۔

اس موقع پر نیپال کی کمیونٹی ہیلتھ ورکر نے صحت عامہ کی خواتین کارکنوں کے درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بتایا کہ ہمارا کام ہماری کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کے لیے ضروری ہے اس کے باوجود ہم مناسب شناخت یا کم از کم اجرت کے بغیر کام کر رہے ہیں انہوں نے چارٹر آف ڈیمانڈ کی اہمیت پر زور دیتے ہوا کہا کہ ’’ہمارا چارٹر مطالبہ کرتا ہے کہ مروجہ کم از کم اجرت کے برابر یا اس سے زیادہ ادائیگی کی جائےاوراس سلسلے میں ہماری یونینوں کے ساتھ مل کر بات چیت کی جائے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ چارٹر اوور ٹائم معاوضے، ملازمت کی حفاظت، پنشن اور صحت کی دیکھ بھال کا بھی مطالبہ کرتا ہےبالکل اسی طرح جیسے دوسرے کارکنوں کو ملتا ہے بھارت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی ہیلتھ ورکر سوگنیا بالاسریش نے صحت عامہ کی خواتین کارکنوں سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیے جانے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم زمینی حقائق کوجانتے ہیں، ہم ان کے ماہرین ہیں، صحت کی پالیسیوں کی تشکیل میں ہماری آواز کو سنا جانا چاہیے، چارٹر قومی پالیسی سازکمیٹیوں میں سی ایچ ڈبلیو کی نمائندگی کا مطالبہ کرتا ہے کٹھمنڈو میں منعقد پریس کانفرنس کے دوران پنجاب لیڈیز ہیلتھ ورکرز یونین، پاکستان کی چیئرپرسن ارم فاطمہ نے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک بند کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا چارٹرآف ڈیمانڈ حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ کام کے لیے محفوظ ماحول پیدا کریں، شکایاتی کمیٹیاں قائم کریں اورعوامی تعلیمی کے منصوبے شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ کام کے دوران مناسب حالات، اوقات کار اور بیماری کی صورت میں پیڈ چھٹی اور زچگی کی لازمی چھٹیاں بنیادی حقوق میں شامل ہیں، ہماری فلاح و بہبود کے معاملات اہم ہیں اور ہم دیکھ بھال کے حق کے مستحق ہیں اس موقع پر پبلک سروسز انٹرنیشنل کی سب ریجنل سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا کنن رمن نے کہا کہ فرنٹ لائن پر گمنام ہیروز کے طور پرکمیونٹی ہیلتھ ورکرز صحت کی تعلیم، نگرانی، اور ویکسینیشن پروگرامز میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے دورن وہ عام لوگوں میں حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں سے متعلق آگاہی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام ممالک میں زچگی اور بچوں کی اموات کی شرح میں بہتری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، صحت عامہ کی خواتین ورکرز روزانہ گھنٹوں پیدل چلتے ہوئے کرتے لوگوں کی مدد کرتی ہیں اور کورونا وبا کے دوران ان کی انتھک محنت کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے