سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست دائر کردی

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر)سابق چیف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے عام شہریوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔درخواست وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشن آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

اس میں استدعا کی گئی کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے، اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے، ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بھیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ملٹری کورٹس کی تمام کارروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے، اس میں مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں ہے، درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔

اس میں مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے، درخواست گزار کا مقصد مجرمانہ سرگرمیوں کے مشتبہ افراد کو بری کرانا نہیں، درخواست گزار ملزمان کے کسی فعل کی حمایت نہیں کرتا، عام شہریوں کے خلاف کیس چلانے کا فورم کریمنل کورٹس ہیں۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ کورٹ مارشل کی کاروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے، کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہوں، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا، حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا، درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔

دائر درخواست میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل کی صورت میں آئین میں دیئے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی، شفاف ٹرائل اسی صورت ممکن ہوگا جب مقدمے کی کھلی سماعت ہو اور ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہو، کورٹ مارشل کی صورت میں ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی، ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دستیاب نہیں ہوگا۔سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مختلف حلقوں کی جانب سے عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں پاکستان بار کونس، سول سوسائٹی اور معروف قانون دان اعتزاز احسن سمیت دیگر نے مطالبہ کیا کہ 9 مئی کے توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات میں ملوث تمام کرداروں کا ٹرائل سول کورٹس میں ہونا چاہیے، کسی سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں نہیں ہونا چاہیے۔

اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔

اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک بھر میں درج 449 ایف آئی آرز میں سے صرف 6 کو پراسس کیا جارہا ہے جس میں 2 پنجاب جبکہ 4 خیبرپختونخوا میں ہیں جن کا ممکنہ ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے، لیکن فضا ایسی بنائی جارہی ہے جیسا سب کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ ملزمان کی مجموعی تعداد میں سے پنجاب میں صرف 19 کو اور خیبرپختونخوا میں 14 یعنی مجموعی طور پر 33 کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا باقی کسی جگہ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی حکام مقدمات کی تفتیش کریں گے لیکن پورا ٹرائل شفٹ نہیں ہوگا، وہ یہ دیکھیں گے کہ کیس میں کہاں کہاں ملٹری ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے