بلوچستان حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ادویات کے لئے 2.7ارب، اسکل ڈوپلمنٹ پروگرام کے لئے 2 ارب،رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، زمرک خان اچکزئی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) صوبائی وزیر خزانہ و خوراک انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صحت کارڈ کے لئے 5.8ارب، ادویات کے لئے 2.7ارب، اسکل ڈوپلمنٹ پروگرام کے لئے 2ارب،فوڈ سیکورٹی کے لئے 1ارب روپے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، صوبے کا بجٹ تمام شراکت داروں، اراکین اسمبلی کی تجاویز کے ساتھ بنایا جائیگا، ریونیو بڑھانے والے شعبوں کی ترجیح دی جائیگی۔یہ بات انہوں نے بدھ کی شب نجی ہوٹل میں محکمہ خزانہ بلوچستان کے زیر اہتمام مالی سال 2023-24کے بجٹ سے متعلق مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر میر ضیاء لانگو، اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ،بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی، پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند، سیکرٹری خزانہ بلوچستان قمبر دشتی بھی موجود تھے۔ صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے ورکشاپ کے شرکاء کو آئندہ مالی سال کے خد وخال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان حکومت نے بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ اور پینشن فنڈ کے لئے 2،2ارب، عوامی انڈومنٹ فنڈ کے لئے 1ارب، پی پی ایچ آئی کے لئے 750ملین روپے مختص کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں 441.39ارب روپے کی آمدن متوقع ہے 2023-24میں صوبے نے اپنے محصولات سے 60.82ارب، وفاق سے 413,12، وفاقی گرانٹ سے 28.27،فارن پروجیکٹس اور کیپٹل ریسپٹس سے 27.01ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں جاری اخراجات کے لئے 357.16، کیپٹل اخراجات کے لئے 28.56، پی ایس ڈی پی کے علاوہ ترقیاتی اخراجات 42.36ارب، اسٹیٹ ٹریڈنگ اخراجات 11.02ارب روپے ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں پی ایس ڈی پی کے لئے 99.89ارب روپے کی گنجائش موجود ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال میں صوبے کو این ایف سی کے حصے کے تحت 40:60کی ریشو سے جولائی تا دسمبر 2022اور جنوری تا جون 2023کے دوران فنڈز ملے جس سے صوبے کو سیلاب کے دوران بھی مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی ایل کے واجبات 55ارب روپے سے بڑھ گئے ہیں جن میں سے صوبے کو ایک پیسہ بھی نہیں ملا جبکہ وزیراعظم نے صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں کے لئے اعلان کردہ 10ارب روپے بھی فراہم نہیں کئے۔انہوں نے کہا کہ صوبے کے ریونیو فراہم کرنے والے محکموں کی آمدن بھی سست روی کا شکار رہی سیلاب کے باعث صوبے کو 11ارب روپے اضافی خرچ کرنے پڑے جبکہ محکمہ خزانہ نے کل 59.5ارب روپے اضافی فنڈز جاری کئے جن میں سے 49.23نا ن ڈوپلمنٹ جبکہ 10.32ارب ترقیاتی مد میں جاری کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں شامل 21اسکیمات کی لاگت پر نظرثانی سے 10.59ارب روپے خرچ ہوئے صوبے کو 5.2ارب سے زائد کی برج فنانسنگ کرنی پڑی ہے جبکہ سال 2023میں گندم کی خریداری کے لئے 6.073ارب روپے کا اضافی قرض لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ صوبے کو کرنسی ایکسنچ ریٹ میں تبدیلیوں کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں میں 3ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑیں گے۔انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ صوبائی حکومت تمام اراکین اسمبلی اور شراکت داروں کی تجاویز کے مطابق بجٹ تیار کریگی۔ اس موقع پر بجٹ سے متعلق تجاویز دیتے ہوئے ارکان بلوچستان اسمبلی مٹھا خان کاکڑ،میر اکبر مینگل، اختر حسین لانگو، اصغر ترین، شکیلہ نوید دہوار، ثناء بلوچ، مولوی نور اللہ، عبدالواحد صدیقی نے کہا کہ بجٹ میں ریونیو فراہم کرنے والے شعبوں کو ترجیح دی جائے اوتھل،گڈانی، حب کے صنعتی دفاتر کراچی میں ہیں جس سے وفاق میں وہ ریونیو سندھ کے نام پر جاتا ہے صوبے میں فشریز کے محکمے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، سرحدی علاقوں میں تجارت کے مواقع فراہم کر کے روزگار پیدا کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام اضلاع کو انکی ضروریات کے مطابق بجٹ فراہم کیا جائے، زراعت کا شعبہ اہم ہے اسکی بہتری پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں خواتین کے لئے بھی خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں بجٹ کو جینڈر رسپانسو بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پری بجٹ اسمبلی اجلاس میں متعلقہ محکموں کے حکام موجود ہوں بجٹ کو سنجیدیگی سے تیار کیا جائے کرپشن میں کمی کے اقدامات اٹھائے جائیں ساتھ ہی بجٹ کی منصفانہ تقسیم بھی یقینی بنائی جائے۔