ہم جمہوری لوگ ہیں اسمبلی میں بات کریں گے نہ کہ پہاڑوں پر جائیں گے، میر اسد اللہ بلوچ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے صدر صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی پسماندگی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے لئے وفاق کا صوبے کا ساتھ دینا ناگزیر ہے، ملک کو جمہوری انداز میں چلایا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، صوبے کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ 2کروڑ سے زائد عوام کو ریلیف دے سکے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر 413ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں ان میں سے 50ارب بلوچستان کو ملیں تو 1لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار اور صنعتیں لگائی جاسکتی ہیں، باپ، بی این پی، جمعیت علماء اسلام کے لوگ کابینہ میں ہیں انہیں بلوچستان کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے آئندہ انتخابات میں عوام اس متعلق ان سے ضرور سوال کریں گے۔یہ بات انہوں نے بدھ بلوچستان اسمبلی کی لابی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ میر اسد بلوچ نے کہا کہ ملک اس وقت مالی بحران سے دوچار ہے بلوچستان بھی آئندہ مالی سال کا بجٹ بنانے جارہا ہے مگر معدنیات، سمندری دولت سے مالا مال صوبے کے لئے تعلیم،صحت،روزگاری کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں وفاقی سطح پر بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے آج بلوچستان کے پاس انتے پیسے نہیں ہیں کہ 2کروڑ سے زائد عوام کو ریلیف دے سکے ملک کو طاقت سے چلانے سے مسائل حل نہیں ہونگے مسائل کا حل جمہوری نظام کے چلنے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ پیراشوٹ سے آنے والے لوگ قانون سازی اور ترقی نہیں دے سکتے ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہونے چاہیئں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیلا ب سے زراعت کے شعبے میں 300ارب روپے کے نقصانات ہوئے وفاق نے پہلے 16ارب پھر 8اور آخر میں 2ارب روپے دینے کا اعلان کیا مگر بلوچستان کو آج تک کوئی رقم نہیں ملی مرکز بلوچستان کے آئینی حقوق، این ایف سی کے تحت حصے کو ادا نہیں کر رہا بلوچستان میں آج بھی 500وفاقی اسکیمات ایسی ہیں جن پر کام نہیں ہورہا پی پی ایل صوبے کا 50ارب روپے کے قریب مقروض ہے لیکن وفاقی بجٹ میں بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے خصوصی پیکج دینے کے بجائے بلوچستان کے لئے کچھ بھی نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب میں امداد کی مد میں بلوچستان کو 2ہزار ارب روپے ملے ہیں مگر بلوچستان پر کوئی رقم خرچ نہیں ہوئی ملک میں اربوں ڈالر کا قرض لیا گیا جس میں سے 1فیصد حصہ بھی بلوچستان پر خرچ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 430ارب روپے رکھے گئے ہیں ہم کہتے ہیں لوگوں کو بھکاری نہ بنائیں اس میں سے 50ارب روپے بلوچستان میں خرچ کئے جائیں تو یہاں کجھور اور کپاس کی فیکٹریاں، 1لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں فی کس آمدن 26ہزار ڈالر سالانہ ہوگئی ہے ہمارے یہاں 17ہزار ہے ہمیں سیاسی مفادات، رسہ کشی نے تباہ کردیا ہے عوام اور سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھ کر ملک کے لئے کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت 50ہزار نوجوان بے روزگار ہیں بے روزگاری بڑھنے سے انتشار بڑھے گا اور امن و امان خراب ہوگا پہلے ہی صوبہ امن و امان پر سالانہ 30ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ چمن، آوران کراچی چیدیگی سڑکیں مکمل کرنے سے یہاں عالمی تجارت کا راستہ ہموا ر ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اسمبلی میں بات کریں گے نہ کہ پہاڑوں پر جائیں گے اپوزیشن میں سب بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اس وقت بی این پی،باپ،جمعیت کابینہ کا حصہ ہیں انہیں چاہیے کہ وزیراعظم کے سامنے آواز بلند کریں ورنہ عوام ان سے سوال ضرور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملنے والی رقم کو خرچ کریں ادویات نہ خریدنے والے افسران کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ خسارے کا ہوگا اور یہ خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔