حالات اتنے خراب نہیں کہ الیکشن نہ ہوں لیکن ایسا کہا جا رہا ہے، ڈاکٹر عارف علوی

اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ الیکشن کے لیے پیسے نہ ہونا بہانے ہیں، بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا پھر بھی انتخابات ہوئے۔ آئین کو سائیڈ ٹریک نہیں ہونا چاہیے، اصولوں پر قائم رہنے سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے 58 ٹو بی نہیں ہونا چاہیے، میں گذشتہ ایک سال سے کہہ رہا ہوں کہ مل بیٹھ کر الیکشن کا معاملہ طے کریں۔ الیکشن تو بہرحال ہونے ہیں، تاہم بطور آئین کو پھاڑ کر پھینکنے والی صورتحال مجھے نظر نہیں آتی۔

صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ سیاستدان عوام کو موبلائز کرتے ہیں، اگر سیاستدان اور عوام متحد ہوں تو آئین کو کوئی بھی رول بیک نہیں کرسکتا۔ آئین کو کسی صورت سائیڈ ٹریک نہیں ہونا چاہیے۔ ایو ب خان کے دور میں آئین کو لپیٹ دیا گیا تھا حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کے حوالے سے صدر عارف علوی نے کہا کہ یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں، اصولوں پر قائم رہنے سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ۔

الیکشن کے وقت پر ہونے کے بارے میں صدر پاکستان نے کہا حالات اتنے خراب نہیں کہ الیکشن نہ ہوں لیکن ایسا کہا جا رہا ہے، حالانکہ دیکھا جائے تو دہشت گردوں نے بے نظیر بھٹو کو شہید کیا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں الیکشن ہوئے، آج ایسی صورتحال نہیں ہے۔ یہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ الیکشن ملتوی کروانے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ صدر عارف علوی نے واضح کیا کہ آئین میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کو ہے ۔

فوج کی سیاست میں مداخلت کے سوال پر صدر مملکت نے جواب دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان دیا کہ فوج سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے جس سے سب کچھ واضح ہوگیا چنانچہ اس بیان کے بعد سیاست دانوں کو مزید ذمہ داری کا مظاہر ہ کرنا ہوگاعارف علوی نے تسلیم کیا کہ عمران خان کے دور میں ریاست مدینہ نہیں بنی ، حکومت میں رہتے ہوئے ہم سے غلطیاں ہوئیں لیکن راستے کا تعین ہوگیا۔ میری اور پاکستان تحریک انصاف کی سوچ ایک ہی ہے لیکن بطور صدر میں نے کبھی اپنے عہدے کی تضحیک نہیں ہونے دی۔

آزادی اظہار رائے پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آج لوگوں کے منہ بند کیے جا رہے ہیں، اغوا کے واقعات بڑھ چکے ہیں۔ صدر پاکستان عارف علوی نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے نماز پڑھنا شروع کی جبکہ والد کی وفات کے بعد انہوں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے