بلوچستان کو پوری بجلی دی جائے تو باہر سے کوئی سبزی یا پھل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، آل پاکستان کسان ایسوی ایشن

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) آل پاکستان کسان ایسوی ایشن اور زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان نے ملک میں فوڈ سیکیورٹی کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں اسوقت فوڈ سیکیورٹی سے متعلق ایمرجنسی نافذ ہے آرمی چیف پاک فوج کو کسانوں کی مدد کے لئے بھیجیں پورے ملک میں اٹھارہ ملین ایکٹر غیر آباد اراضی کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے، فوڈ سیکیورٹی کی سنگین صورتحال کے مد نظر زراعت بڑھاؤ، پاکستان بچاؤ مہم شروع کر دی گئی ہے یہ بات آل پاکستان کسان ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر خالد محمود کھوکھر، زمیندار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ملک نصیر احمد شاہوانی، زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری کاظم اچکزئی، زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے ایگزیکٹو ممبر حاجی نور احمد، آل پاکستان کسان ایسوسی ایشن کے رکن محمد ذیشان نے بدھ کو یہاں کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ گزشتہ سال 22 ہزار روپے فی من گندم مقرر کی گئی تھی تاہم کسان کو اس کا ثمر نہیں ملا یہی گندم عوام کو چار ہزار روپے فی من ملی ساڑھے 17 سو ارب روپے کوئی اور کھا گیا بد قسمتی سے کسی بھی حکومت میں زراعت کو ترجیحی نہیں دی گئی اسوقت کسان اور کاشتکار کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے اور زرعی ملک ہوتے ہوئے آج ہم 14 سے 15 ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کررہے ہیں ہم نے اپنی آبادی بڑھادی ہے اور زرعی رقبے ختم کررہے ہیں ملک میں زرعی زمینوں پر کالونیاں بنتی جارہی ہیں زرعی تحقیقات پر ہمارے ہاں کوئی توجہ نہیں دی گئی اسوقت بارڈر سیکورٹی دوسرا جبکہ فوڈ سیکورٹی پہلا مسئلہ بن گیا ہے پاکستان میں 18 ملین ایکڑ زمین قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے پاک فوج سے درخواست ہے ان زمینوں کو آباد کرکے کسانوں کو دیں سیاسی جماعتیں محض اپنے مفاد کے لیے سوچ رہی ہیں پاکستان کے لئے کوئی نہیں سوچ رہا سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ خدارا پاکستان کے عوام کے لئے سوچیں کوئٹہ، قدرت نے ہر چیز دی ہے پھر بھی گندم درآمد کررہے ہیں خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ کاشتکار کا جینا مرنا ملک میں ہے انہیں اپنے ملک سے پیار ہے بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے بلوچستان پر توجہ دی جائے تو پورے ملک کی زرعی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں بھارت میں 70 فیصد کپاس بارانی جبکہ ہماری ایک فیصد بھی بارانی فصل نہیں ہماری معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے پھر حکومتی ترجیحات میں زراعت کیوں نہیں بد قسمتی سے سب سے زیادہ جھوٹ زراعت کے شعبے پر بولا جاتا ہے زراعت کے لئے اربوں روپے کے پیکجز کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہیں زراعت پر کسی حکومت نے سرمایہ کاری نہیں کی ملک میں زراعت پر جدید تحقیق لازمی ہے دنیامیں پرائیویٹ سیکٹر سب سے زیادہ جدید تحقیق کررہا ہے آرمی چیف حکومت کو پرائیویٹ سیکٹر کو مجبور کریں کہ یہاں آکر سرمایہ کاری کریں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زمیندار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی پر پوری دنیا آج سوچنے پر مجبور ہے بلوچستان کے صرف دو اضلاع کو آباد کیا جائے تو پورے پاکستان کی زرعی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں تاہم زرعی شعبے پر توجہ نہیں دی جاررہی کچھی کینال کو چار سال میں مکمل ہونا تھا 20 سال بعد بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا کچھی کینال سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین آبادکی جاسکتی تھی لیکن اسے ڈیرہ بگٹی تک محدود کردیا گیا اور اس سے صرف بیس پچیس ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوررہی ہے بلوچستان میں سالانہ 8 لاکھ ٹن سیب، بارہ لاکھ ٹن پیاز اور ستر اقسام کے فروٹ پیدا ہوتے ہیں لیکن بجلی کی قلت کے باعث زرعی شعبہ تباہی سے دوبار ہے بلوچستان کو بجلی صرف 6 گھنٹے بجلی دی جاتی ہے بلوچستان کو پوری بجلی دی جائے تو باہر سے کوئی سبزی یا پھل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی انہوں نے کہا کہ آنے والی جنگیں دنیا میں پانی یا فوڈ سیکورٹی پر ہوں گی اگر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے تو اس کے زراعت کو فروغ دینا اور عملی اقدامات اٹھانا ضروری ہے ایسی تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس سے کم پانی والی فصلیں اگائیں جائیں بد قسمتی سے ہماری تحقیق صفر ہے پڑوسی ملک ایران میں بھی ڈرپ ایریگیشن ہورہی ہے لیکن ہمارے ہاں ابتک صرف سوچا جاررہا ہے انہوں نے کہا کہ زمیندار جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے کم پانی والی انگور کی چار ورائٹیاں باہر سے لائیں اور بلوچستان میں کامیابی سے کاشت کیں لائے ہیں ضرروت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں زرعی شعبے پر غیر معمولی توجہ دی جائے
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے