بولان میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے ، سردار یارمحمد رند

سبی (ڈیلی گرین گوادر)رکن بلوچستان اسمبلی اور رند اقوام کے سربراہ سردار یارمحمد رند نے کہا کہ ضلع بولان میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے،صوبائی حکومت امن و امان کی صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دے رہی،وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اللہ پاک پر پختہ یقین کرکے عوام اور مسائل کو اللہ کے حوالے کیا ہے سب کچھ اللہ پاک خود بہتر کریں گے اور اللہ پاک سے میری دعا ہے کہ ہمارے عوام کو ان تمام مسائل اور واقعات کو صبر سے برداشت کرنے کی ہمت دے،مردم شماری کے لئے وقت بہت کم ہے حکومت مردم شماری کی تاریخ میں توثیق کرے،ماضی میں ضلع کچھی کی دو نشستوں کو ختم کرکے ایک کردیا گیا تھا جس سے بولان کے عوام کو حقیقی نمائندگی سے محروم رکھاگیا اب امید ہے کہ ضلع کچھی کی آبادی اور ووٹرز کو مد نظر رکھتے ہوئے سیٹوں میں اضافہ کیا جائے،ملک کے اندر چاروں صوبوں اور قومی اسمبلی کاالیکشن ایک ساتھ ہونا چاہئے،بلدیاتی انتخابات ٹریکی ہوتے ہیں گزشتہ تیس سالوں سے ہم کامیاب ہوتے آرہے ہیں انشاء اللہ اب بھی ہم عوام کی طاقت سے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈھاڈر میں سبی پریس کلب کے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔سردار یار محمد رند نے کہا کہ ضلع بولان میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے کوئی دن ایسا نہیں کہ کوئی نہ کوئی واقعہ یا سانحہ رونماء نہ ہو،بد قسمتی سے صوبائی حکومت بولان کچھی کی صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں،صوبائی حکومت نے ضلع کچھی کے عوام سمیت شاہراہوں پر سفر کرنے والوں کو اللہ کے حوالے کیاہے،وزیر اعلیٰ بلوچستان نے خود تقریر میں کہاہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ خود ٹھیک کریگا،مجھے لگتا ہے کہ ان کا اللہ پاک پر پختہ ایمان ہے،ہم بھی مسلمان ہیں اور اللہ پاک سے دعا مانگتے ہیں کہ جس طرح قدوس بزنجو کا ایمان مستحکم ہے اسی طرح اللہ پاک ہمیں بھی صبر دیں ان واقعات کوہمارے لوگ برداشت کرسکے،ضلع بولان میں اس سے قبل لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ اتنا سنگین نہ تھا جتنا اب ہے،انہوں نے مردم شماری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وقت بہت کم ہے میں اپنے علاقے میں تھااور میں نے خود بھی بہت کوشش کی ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی بڑا ایفیشنٹ ہو اوربہت اچھے طریقے سے آپریٹ کرنا جانتا ہوتو بشرطیکہ ہمارے ہاں ہمارے اساتذہ میں وہ کیپابلٹی نہیں ہے کہ وہ ٹیبلٹ کو صحیح طریقے سے آپریٹ کرسکے اس کے باوجود اگر وہ بہت کوشش بھی کرتے ہیں تو ایک دن میں 26گھرانے سے زیادہ نہیں کرسکتے۔اسی طرح یہ عمل مکمل نہیں ہوسکتا میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ مردم شماری کی تاریخ میں توثیق کی جائے اور بہتر انتظامات کیے جائے تاکہ یہ مرحلہ خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل ہو، انہوں نے کہا کہ مردم شماری اور خانہ شماری کے بعد حلقہ بندیاں صحیح طریقے سے کیے جائیں اگر صحیح طریقے سے حلقہ بندیاں نہیں کیے گئے تواربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے اس صوبے کے وسائل کو استعمال کرنے کی ضرورت کیا ہے اوریقینی طور پر سیٹوں کوبڑھانا چاہیے اگر سیٹوں کو بڑھایا نہیں گیاتو عوام اسے قبول نہیں کریگی۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ملک میں صرف دو صوبوں کے انتخاب ہوئے اور یہ ٹین اوور پورا ہوگا اور جب ہم جنرل الیکشن کی طرف ہم جائینگے تو یہ بہت بڑاایک اثرانداز ہوگی آپ کے الیکشن کے اوپر کہ دو صوبوں کی موجودہ اسمبلیاں ہونگی میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا آئینی اور سیاسی بحران ہوگااگر الیکشن کروانے ہے تو میرے خیال میں ایک ٹین اوور میں پورا کرنا چاہیے اس کے باوجود اگر نہیں ہورہا ہے تو پھر پورے ملک کے اندر چاروں صوبوں اور قومی اسمبلی کاالیکشن ایک ساتھ ہونا چاہیے،انہوں نے سیکیورٹی کے حوالے سے کہا کہ میں ایم پی اے ہو ں اور میرا بیٹا دو دفعہ ضلع چیئرمین اور دو بار ضلع ناظم رہ چکا ہے ہم اپنے گھر سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر تک نہیں پہنچ سکتے میرے بیٹے پر حملہ ہو اہے ہماری حالت یہ ہے کہ ہم سے آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ واقعہ کیا ہے ہمارے لوگ شہید اور زخمی ہوگئے ہیں کسی کوکوئی پرواء نہیں ہے اس صورتحال میں ہمارے صوبے اور ملک کے اندر کیا انتخابات ہونگے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ملک کے حالات کو دیکھ کر اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں سردار یار محمد رند نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلدیاتی انتخابات ٹریکی ہوتا ہے اور گزشتہ پچیس تیس سالوں سے ہم جیتتے آرہے ہیں اور آگے بھی ہمیں یہاں کے عوام سے امید ہے کہ ہم ہی جیتے گے انہوں نے مزید ایک سوال کے جواب میں کہاہے کہ اس وقت بھی میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ پچھلے دفعہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہماری دو سیٹیں تھی جسے ایک کردیا گیااور اب بھی ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست میں سب سے زیادہ تعداد ووٹرز اور خانہ شماری و مردم شماری کے لحاظ سے ضلع کچھی کی ہے لگتا ہے کہ وہ ہم پر زیادہ مہربان ہے اور ہماری جو بھی اپیل جاتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ہم مایوس ہوکر واپس لوٹتے ہیں ہمیں یہ خوف ہورہا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہمارے جو مہربان بیٹھے ہوئے ہیں جو ہماری زندگی اور موت، الیکشن میں کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں اللہ کرے کہ وہ ہم پراور ہمارے لوگو ں پر رحم کرے اور ہمارے علاقے کی صحیح نمائندگی اور حق دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے