پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات از خود نوٹس کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، فیصلہ کل صبح گیارہ بجے سنایا جائے گا۔سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سےمتعلق ازخود نوٹس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، فیصلہ کل صبح گیارہ بجے سنایا جائے گا۔چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی ہے جب کہ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ہدایت کی سب اپنے اپنے لیڈرز کو فون کریں اور ہدایات لیں، حل نکل آئے گا، عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ ہم سب وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوبارہ آغاز پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے اپنی قیادت سے بات کی ہے، پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ تاریخ دینا سیاسی جماعت کا مینڈیٹ نہیں۔
دوسری جانب ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کیساتھ مشاورت کرنی ہے، وقت دیا جائے۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی جو خلاف آئین ہے، صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو 2 ماہ میں الیکشن لازمی ہیں، اس دوران صدر کو ایڈوائس کون کریگا؟ ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بھجوا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سمری واپس بھجوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے۔صدر کو اعتماد کے ووٹ کا کہنے کیلئے سمری کی ضرورت نہیں۔ن لیگ کے وکیل عثمان منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں پہلی بار قائم مقام حکومت 1988 میں بنی جس نے انتخابات کرائے، اس حکومت کو اس وقت کے صدر نے تشکیل دیا۔ جنرل الیکشن کے حوالے سے مردم شماری کرائی جارہی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس مردم شماری کا نتیجہ جاری کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے،صرف مخصوص حالات میں عدالت ازخودنوٹس لیتی ہے،گزشتہ سال 2 ،اس سال صرف ایک ازخود نوٹس لیا۔انہوں نے کہا کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں،عدالت اس تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے،مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دےگا اس کا تعین کرنا ہے۔
چیف جسٹس نےریمارکس میں کہا کہ صرف قانون کی وضاحت کرناچاہتے ہیں،عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نہ دے رہی ہے۔
ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد سب کچھ صوبوں کے پاس چلا گیا، وفاق کے پاس کچھ نہیں رہا، ڈیجیٹل مردم شماری ہو رہی ہے۔جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ یقین ہے کہ مردم شماری اپنے وقت پر مکمل ہو جائیگی۔ ن لیگ وکیل نے کہا کہ اس بارے میں وفاق کے وکیل انڈر ٹیکنگ دے سکتے ہیں۔
اس موقع پر جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے، گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے موقف اپنایا کہ مردم شماری ہو چکی ہے، ایسا ممکن نہیں ،2 صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہوں۔ ایسا نہیں ہوسکتا ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسرے میں نہ دے، آرٹیکل 105/3 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کےمطابق نہیں ہے، اسے بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ غلطی کو درست آپ نے کرنا ہے یا عدالت نے؟ اسمبلی کو قانون سازی کیلئے کتنا وقت درکار ہو گا؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اسکا کوئی مقصد ہو گا۔ جس پر جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے،۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ گورنر آپ کی پارٹی کے ہیں انہیں کہیں تاریخ کا اعلان کردیں۔اس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین سے مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرے۔جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ فریقین لچک دکھائے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکر فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ۔قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں۔ ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئےگا ۔
فاروق ایچ نائیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا سے شام 4 بجے تک رائے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں ،عدالت کا سارا کام اس کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت 5رکنی نیا بینچ کر رہا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی نئے بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت شروع ہونے پر اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا،سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا۔جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے۔وکیل ہائیکورٹ بار عابد زبیری نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 105/3 قانون کہتا ہے کہ گورنر کو الیکشن کے لیے تاریخ دینا ہوتا ہے۔18ویں ترمیم سے پہلے صدر تاریخ کا اعلان کرسکتا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست نہیں کہ گورنر کا اقدام صدر کا اقدام ہوتا ہے؟
وکیل عابد زبیری نے کہا ہے کہ اگر گورنر اسمبلیاں ختم نہیں کرتا تو پھر کیا صورتحال ہوگی، اس پر دلائل دونگا۔آرٹیکل 224اے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد صدر یا گورنر قائم مقام حکومت بنائینگے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کےتحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کےتحت نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پرگورنرکسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرےگا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کےساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنےکی کیا ضرورت ہے؟جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنرکو دے سکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟ اس پر سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے کہا کہ نگران حکومت کاکام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نگران وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کرے تو کیا گورنر اس کا بھی پابند ہے؟ وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے۔چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ 105 آرٹیکل میں ترمیم کے بعد کی صورتحال بتا رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہایہ معاملہ شاید صدر کا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ ایسی صورتحال میں جب گورنر کردار ادا نہ کریں تو صدر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں خاص طور پر جب عام انتخابات کی بات ہو تو پھر 90دن میں تاریخ دینا ضروری ہے۔سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا۔کیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے،آئین کی مختلف شقوں کی ہم آہنگی ضروری ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے؟عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ اگر صدر الیکشن کی تاریخ مشاورت سے دے سکتے ہیں توکیا گورنر بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ مشاورت شاید الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوگی۔جسٹس منصور علی شاہ اگر گورنر الیکشن کرانے پر مشاورت کرتے ہیں توپھروہ وسائل سے متعلق بھی پوچھ سکتے ہیں ؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا۔گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نےاستفسار کیا کہ کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی ؟صدر سپریم کورٹ بار نے دلائل دیے کہ آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہوناہے ، نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ ہمیں علم ہے کہ صدر جو بھی عمل کریں گے وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے ساتھ کریں گے۔صدر اپنے اختیارات کن قوانین کے تحت استعمال کرتے ہیں ، معاونت کریں۔انکا کہنا ہے کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔الیکشن کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں،گورنر الیکشن کمیشن کے انتظامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا،گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا۔جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نےکہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ اگرمان لیا کہ قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے تو پھر صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینےکا کہہ سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرےفریق کو سن کرفیصلہ کریں گےکہ صدرکو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔وکیل عابد زبیری نےکہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کا پابند ہوگا۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانےگا، الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90 دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنرکی تاریخ پر تاخیر کرسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نےکہا کہ گورنر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 ویں دن کا کہہ سکتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ گورنرکو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ آج الیکشن کمیشن سےگورنرکی مشاورت کرائیں اورکل تاریخ دے دیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہوسکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینےکی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے واضح کہا کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر کوکرنا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟
چیف جسٹس نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت 14،14 دن ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ آئین کےتحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاریخ میں صدر کےکچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ کیا کسی نے سیکشن57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا؟جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیارہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینےکا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہااگر وزیر اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے۔گورنر کی دو زمہ داریاں ہیں کہ ایڈوائس پر عمل کرے اور نہ کرے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا،سپریم کورٹ کے ایک لارجر بینچ نے پیر صابر شاہ کیس میں بھی فیصلہ کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا موقف ہے کہ گورنر نے اسمبلی تحلیل نہیں بھی کی تو وہ تاریخ دے گا۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ ایڈوائس کے معاملے پر ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل میں چلے گئے۔الیکشن کمیشن نے 2خط الگ سے گورنر خیبرپختونخوا اور پنجاب کو لکھے۔الیکشن کمیشن نے خط میں تاریخ دینے کی بات کی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت کام کرنا ہے۔الیکشن کمیشن 3 طرز کی تاریخ دے سکتا ہے۔الیکشن کمیشن سینیٹ،صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے۔ہم صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کی بات کررہے ہیں۔ہمارا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر نے کرنا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دہے کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے۔حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی وہ عملدرآمد ہوتا ہے۔ گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟گورنر نے مشاورت کےلیے آپکو بلایا یا نہیں؟الیکشن کے معاملے پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، اس پر کمیشن گورنر کے سامنے تیار ہوکر جائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمے میں کہا کہ آپ تیار ہوکر آج ہی گورنرز کے پاس جا سکتے ہیں،۔الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور گورنرز کو لکھے گئے خط عدالت میں پیش کردیئے۔ چیف جسٹس نے کہاآپ ایک کانفرنس کرلیں، اس میں سب کو بتائیں کہ یہ صورتحال ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا گورنر خیبرپختونخوا کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے،الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک موقف ہے کہ جس نے تاریخ دینی ہے اس نے زمینی حقائق دیکھنے ہیں،۔ایک موقف ہے الیکشن کمیشن کو ہر صورت میں الیکشن کرانے ہیں،الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے اس کو ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔اس میں اگر رکاوٹ آتی ہے تو اس کو مشاورت سے حل کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ سسٹم کو پیرالائز کرنے کی آئین میں اجازت نہیں۔گورنر خیبر پختونخوا نے جو نشاندہی کی ہے ا س پر بیٹھ کر حل نکالا جاسکتا ہے۔آئین اور قانون کے مطابق یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ الیکشن کرانے ہیں۔