شہید لطیف آفریدی حقیقت پسند سیاسی رہنما تھے،اصغر خان اچکزئی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)ملک کی قوم پرست، ترقی پسند سیاسی رہنماں، وکلا اور سول سوسائٹی نے این ڈی ایم کے بانی جمہوری، ترقی پسند سیاسی رہنما و ممتاز قانون دان شہید لطیف لالا آفریدی کو ان کی خدمات جدوجہد اور قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی کارکن کیلئے سب سے ناکامی والا دن مایوسی کا ہوگا جب تک جدوجہد جاری رہے گی امید زندہ رہے گی، خطے کے حالات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں نئی ڈویلپمنٹ میں بین الاقوامی قوتیں بھی ملوث ہیں اس نئے ڈویلپمنٹ کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے،پاکستان میں قانون بطور ہتھیار انسانی حقوق اور اپنے حق کی بات کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، 18 ویں ترمیم چارٹر آف ڈیموکریسی ہے جس نے مارشل لا کا راستہ بند کردیا جرنیل جو مارشل لا لگاتی تھی اب حکومتوں کے تختہ الٹنے جا کام عدالت کررہی ہے، معاشرے کی بہتری میں سیاسی و ترقی پسند افراد اپنا کردار ادا کرے تو مشکلات کم ہو سکتی ہے لیکن گزشتہ 70 سالوں سے یہاں تجربات پر تجربات کئے جا رہے ہیں جو کوئی حق کی بات کرتا ہے اس پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے جس نے تمام اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے،سیاسی طور پر عوام اتنی بے زار ہے کہ مذہب کی طرح اب سیاست بھی فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے، جب ہم تقسیم در تقسیم ہوں گے تو پھر کیسے سیاسی و قومی اہداف حاصل ہوں گے؟ان خیالات کا اظہار نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے زیر اہتمام این ڈی ایم کے بانی جمہوری، ترقی پسند سیاسی رہنما و ممتاز قانون دان شہید لطیف لالا آفریدی کو ان کی خدمات جدوجہد اور قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقد تقریب سے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی رہنما اور ریسرچ و پالیسی کمیٹی کے سربراہ ممتاز دانشور محترم افراسیاب خان خٹک، سیکرٹری جنرل سید مزمل شاہ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میر رحمت صالح بلوچ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد افضل حریفال ایڈووکیٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن و ضلع کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری، پشتو اکیڈمی کوئٹہ کے پروفیسر شوکت ترین، شہید باز محمد فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر لعل خان کاکڑ، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری چنگیز حئی بلوچ و دیگر و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مابت کاکا، موسی جان بلوچ، عبدالخالق مری و دیگر بھی موجود تھے۔ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ 1943 میں خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئے پشاور یونیورسٹی سے لا آف اکنامکس کیا ایوب خان کے زمانے میں ان میں نظریہ سوچ و فکر پیدا ہونے لگی۔ نیشنل عوامی پارٹی، مزدور کسان پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیاسی تنظیموں سے وابستہ رہے 80 سال کی عمر میں بھی وہ اتنے فعال تھے کہ ایک نوجوان سے زیادہ متحرک نظر آئے۔ ان کا نعم البدل صدیوں میں پیدا ہوں گے پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں جب کبھی مشکل صورتحال کا سامنا کرتے اس کی وفات سے پشتونخوا وطن یتیم ہوگیا ہے۔ لطیف آفریدی الفاظ کے ہیر پھیر سے کام نہیں لیتے بلکہ صاف الفاظ کا چناؤ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ان کا سوشل سرکل تھا جس میں ہر طبقے ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ گمبھیر سیاسی حالات میں یقینا پیچیدہ ماحول میں اتحاد و اتفاق اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات ایک نیا موڑ لے رہا ہے خطے میں نئی ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے جس میں بین الاقوامی قوتیں بھی ملوث ہیں اس نئے ڈویلپمنٹ کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے ہم شہید لطیف آفریدی کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں جس طریقے سے لطیف آفریدی کو قتل کر دیا اور پشاور ہائی کورٹ کے احاطے میں لطیف آفریدی کو قتل کرتے ہیں۔ اس قتل کو جو موڑ دینے کی کوشش کی گئی۔ انگریز کے بقایاجات اس طرح کے واقعات میں بہت زیادہ مہارت رکھتے ہیں عثمان خان کاکڑ کی شہادت بھی ایک کھڑی ہے۔ یہاں جو بھی حق کیلئے آواز بلند کرتا ہے تو ریاست اس کے لطیف آفریدی جیسا رویہ اپناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات اب سب کے سامنے کھل گئی ہے کہ یہاں نہ آئین اور نہ قانون ہے بلکہ صرف اور صرف کھلی بدمعاشی ہے۔ ہرنائی میں 2 سیاسی کارکنوں کو 3 ایم پی او کے تحت اٹھا کر مچھ جیل میں بند کیا گیا ہے۔ قانون بطور ہتھیار انسانی حقوق اور اپنے حق کی بات کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کھلم کھلا بدمعاشی کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ امریکن انٹرسٹ اور دوسری طرف چین کے درمیان رسہ کشی کے خلاف پشتون عوام خیبر پختونخوا میں نکلی ہے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک جرنیل تھا جو کہتا تھا کہ علی وزیر معافی مانگیں لیکن وہ کہاں ہے اور علی وزیر کہاں ہے سیاسی کارکن کیلئے سب سے ناکامی والا دن مایوسی کا ہوگا جب تک جدوجہد جاری رہے گی امید زندہ رہے گی۔ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی رہنما اور ریسرچ و پالیسی کمیٹی کے سربراہ ممتاز دانشور محترم افراسیاب خان خٹک نے کہا کہ لطیف آفریدی 1960 کی دہائی سیاسی میدان میں آئے یہ وہ دور تھا جب بین الاقوامی سطح پر قومی جنگیں عروج پر تھی پاکستان میں اس وقت ایوب خان اور ون یونٹ کے خلاف نوجوان کھڑے ہوئے۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں وہ شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان خان شہید کا علاقہ ہے جس نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی۔ بلوچستان جمہوری تحریک کا مورچہ تھا۔ اور جمہوری تحریک کو متنفر کرنے کیلئے مصنوعی لیڈر شپ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا پر ایک سازش کے تحت دہشت گردی مسلط کی گئی تاکہ مضبوط قبائل کو تقسیم کیا جائے۔ امریکہ و طالبان معاہدہ میں افغانستان میں ریاست جو ڈی رکگنائز کیا گیا اور طالبان سے امریکہ و اتحادیوں کے خلاف اپنی زمین استعمال نہ ہونے کی گارنٹی طلب کی۔ پاکستان میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں دہشتگردی شروع ہوتی ہے ایک ہزار کارکن اے این پی کے شہید کئے گئے سیکورٹی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ 18 ویں ترمیم چارٹر آف ڈیموکریسی ہے جس نے مارشل لا کا راستہ بند کردیا جرنیل جو مارشل لا لگاتی تھی اب حکومتوں کے تختہ الٹنے جا کام عدالت کررہی ہے۔ ملک میں جرنیل شاہی کا بازار گرم ہے۔ چین بیلٹ روڈ بنا رہا ہے امریکہ و اتحادی اس کے خلاف ہیں افغانستان کو ایک نئی جنگ کا میدان بنایا جا رہا ہے مشکل صورتحال میں عوام میں شعور بیدار ہو رہی ہے لوگ امن کیلئے نکل رہے ہیں۔ ہر پشتون جان گیا ہے کہ یہ جہاد نہیں فساد ہے یہ فساد جرنیل شاہی لائی ہے۔ سویت یونین کے خلاف جنگ میں ہمیں ایندھن بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان گھمبیر صورت حال ہے یہاں اہم مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے اور اب خواتین کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے پونم کی طرز پر اتحاد سیاسی تنظیموں کے درمیان ممکن ہے اور وقت و حالات کا تقاضا ہے اتحاد کیلئے جدوجہد کی جائیں۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے شہید لطیف آفریدی کی سیاسی قومی اور سماجی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید لطیف لالا کی انسانی حقوق، سماجی جدوجہد ہمیشہ غریب و متوسط طبقے کیلئے تھی۔ بلا معاوضہ وہ غریب لوگوں کے کیسز لڑتے تھے۔ وہ جمہوریت نواز آئین و قانون کے پاسدار تھے آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہے بدبختانہ قوم کی حیثیت سے دشمنی کی آڑ میں ہمارے سیاسی و قبائلی عمائدین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جب سے انگریزوں نے افغانوں کے خلاف پہل کی آج تک ہم اس صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔ بحیثیت اقوام ہم پر بہت سی چیزیں مسلط ہوئیں، ریاستی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں جس میں کسی خاتون کو اٹھایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ریاست میں مقننہ، عدلیہ اور پھر انتظامیہ ہے یہاں مقننہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں آج پاکستان کے ایک وزیر کا بیان ہے کہ پاکستان معاشی طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے زرعی پیداوار گٹ کے نیچے چلا گیا ہے باہر سے چیزیں منگوانے کیلئے ایک ڈالر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہ لوگ جو سیاسی بصیرت سے بات کرتے تھے ہمارے اکابرین نے جو باتیں یہاں رکھی اور انہیں جن القابات سے نوازا گیا وہ صورت حال اور آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان کے پاس وہ قوت نہیں کہ یہاں پیدا ہونے والے سیاسی معاشی بحران کو ختم کر سکے۔ دنیا میں آج بھی پاکستان کو تنہائی کا سامنا ہے۔ ہمارے ساتھ بیٹ آبوٹ دی بش والا صورت حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہے منزل کیلئے جدوجہد جاری ہے آج تمام تر صورت حال کے باوجود پاکستان میں جمہور کی حکمرانوں تسلیم، آئین کی پاسداری ہوگی، ہمیں پاکستانی بٹوارے اور انگریزی بٹوارے کا سامنا کررہے ہیں۔ میرا دعوی ہے کہ پاکستان میں زمین کے حوالے سے سب سے بڑی زمین، آبادی پشتونوں کی ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ مسافر قوم بھی پشتون ہے۔ تمام اقوام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو ڈبوئیں گے یا ملک کی بہتری کیلئے ایک ہوں گے۔ ہر ادارے کی ادارتی حدود کا تعین آئین میں واضح ہے لیکن سوال اس کے عمل درآمد کا ہے۔ پاکستان میں 4 کھرب صرف بجلی چوری کے لاسز ہیں اس چوری میں جن کے ہاتھ ہیں ان پر ہاتھ بھی نہیں ڈالا جا سکتا۔ دہشتگردی، جبری طور پر گمشدگی جیسے صورت حال سے نکلنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کی بات کو سامنے رکھا جائے، بھوکا پیاسا سڑک پر ایک دوسرے کو گلے سے پکڑنے تک کی صورت حال کا سامنا کرنے کیلئے اور نکلنے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ہم سیال قوم ہے ہمیں اپنی تاریخ پر فخر ہے پشتونخوا ہمارا وطن ہے۔ این ڈی ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل سید مزمل شاہ نے کہا کہ شہید لطیف آفریدی کی سیاسی قومی و سماجی زندگی کے حوالے سے الفاظ کے استعمال میں شاید ان کے ساتھ انصاف نہ کر سکے 50 سالہ ان کی عملی جدوجہد رہی ہے انہوں نے ہمیشہ نظریات و افکار کو عزیز رکھا 80 سال کی عمر میں بھی وہ زندگی سے اتنے بھرپور تھے کہ وہ کبھی مایوسی کے شکار نہیں ہوتے تھے۔ بنوں جرگہ کے انعقاد پر شہید لطیف لالا انتہائی خوشی کا اظہار کررہے تھے جو جرگہ ہوا اس میں تمام سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا لطیف آفریدی نے اس بنوں جرگہ کے ڈاکومنٹس پر عمل درآمد کیلئے جدوجہد شروع کی اور زندگی کے آخری ایام تک جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا کہ سیاسی قوم پرست رہنما ترقی پسند تحریک کو تشکیل دیکر ان مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کی جا سکے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ شہید لطیف آفریدی کے نظریات و افکار اور مشن کو جاری رکھے گی۔ اس عمر میں بھی جب انہیں ذمہ داری ملتی تو خوش اسلوبی سے ذمہ داری قبول کرتے ان کی خواہش تھی کہ ہمارے نوجوان سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قومی سیاست کی طرف راغب ہوں انہوں نے کہا کہ شہید لطیف لالا ایک صحت مند سیاسی مقابلے پر یقین رکھتے تھے۔عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ شہید لطیف آفریدی حقیقت پسند سیاسی رہنما تھے اگر کبھی کسی معاملے پر انتہا تک جاتے تو یہ اس کی سچائی تھی لطیف آفریدی نے وکلا میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہے، وہ انتہائی مہمان نواز تھے شہید لطیف آفریدی کو خراج عقیدت و خراج تحسین پیش کرنے کیلئے الفاظ کم پڑھ جاتے ہیں۔ جن نکات پر شہید لالا نے سیاست کی وہ ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے 47 تک یا 47 کے بعد قوم پرست تحریکیں ہمیشہ جدوجہد کرتے آئے ہیں، جب حق کیلئے آواز آٹھ رہی تھی تو مذہب ملک خان و نواب کی طرف سے فتوی لگتے رہے ہیں۔ افغانستان کی اس خطے میں جو اسٹریٹجک حیثیت ہے لیکن یہاں کی ریاست یا بین الاقوامی قوتوں نے کبھی بھی افغانستان کو پر امن نہیں رہنے دیا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی سیاسی و قوم پرست تحریکوں کو دوام بخشنے والا ریاستی جبر سے محفوظ نہیں رہا ہے آج ملک جن مسائل و مشکلات کا شکار ہے جرنیل کے پیچھے جج کا کردار لازمی ہے وہ اپنے لیے احتساب کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم کیلئے چوہدری افتخار نے پوری پارلیمنٹ کو بلیک میل کیا اور اپنے لئے نظام وضع کیا۔ پارلیمنٹ فوج کے ایک سپاہی تک کیلئے قانون سازی نہیں کر سکتا آج تک کسی بھی ملک یا ریاست میں مثال ملتا ہے کہ عدالت کسی ڈکٹیٹر کو ایکسٹینشن دیں۔ انہوں نے کہا کہ گینگ آف پانچ میں ایک مہرہ ہے بنگال کو الگ کرنے کا ذمہ دار بھٹو کو ٹھہرایا گیا ہماری سیاست میں جو کردار تھے دنیا کے سامنے ہیں جب تک ایک منظم سیاسی جدوجہد نہ ہوں تب تک گینگ آف پانچ سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عجیب صورت حال ہے کہ دہشت گردوں کی ٹارگٹ بھی قوم پرست اور ریاست کا نشانہ بھی قوم پرست، عمران خان برملا کہتا ہے کہ 8 ہزار سے زائد میلیٹنٹس کو خیبر پختونخوا میں آباد کرنا تھا اور کسی بھی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کی مذمت نہیں کی جاتی لیکن بتایا جائے کہ بلوچ مزاحمت کار کو اس نہج تک پہنچایا کیسے؟ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت حقیقی سیاسی و قوم پرست کو بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے جب تک جرنیل و جج گٹھ جوڑ کا خاتمہ نہیں کیا جاتا حالات سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو مل کر آگے بڑھنے اور اس صورت حال کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر سابق صوبائی وزیر میر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری کرنے والوں کو جسمانی طور پر ہم سے الگ کیا جاتا ہے لیکن وہ رہتی دنیا تک زندہ رہتے ہیں، معاشرے کی بہتری میں سیاسی و ترقی پسند افراد اپنا کردار ادا کرے تو مشکلات کم ہو سکتی ہے لیکن گزشتہ 70 سالوں سے یہاں تجربات پر تجربات کئے جا رہے ہیں جو کوئی حق کی بات کرتا ہے اس پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے جس نے تمام اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے سیاست برداشت اور برد باری کا نام ہے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری انٹلکچول جنو سائیڈ کیا جا رہا ہے جو آگ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے لگایا پورے بلوچستان کو لپیٹ میں لے کر ہر گھر تک پہنچ رہا ہے اگر ہم نے اس نظام سے ہاتھ اٹھا لیا تو ہم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، بلوچستان میں اتنی کابلی گاڑیاں نہیں جتنے سردار بنائے گئے ہیں۔ ہم ترقی پسند اور قلم سے محبت کرنے والے لوگ ہیں روزانہ لاشیں اٹھا رہے ہیں اگر اس ملک کے پارلیمانی نظام میں ٹپہ ماری کا سلسلہ جاری رہا تو ہم اس پارلیمانی نظام کیلئے نوجوان کو قائل نہیں کر سکتے یہاں اصل اسٹیک ہولڈرز کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے کس طرح مصنوعی لیڈر شپ سے ملک کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے بلوچ پشتون اکابرین نے جب جیلیں کاٹی تو اقتدار کیلئے نہیں بلکہ مستقبل کیلئے کاٹی ہے، ہمیں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے لطیف آفریدی جیسی ہستی اور میر حاصل بزنجو جیسے توانا آواز کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور مصنوعی لیڈر شپ کے خلاف منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن و ضلع کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری نے شہید لطیف آفریدی کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ لطیف آفریدی نے جدوجہد کا جو راستہ اپنایا اس میں انہوں نے صرف طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں بلکہ آخر میں اپنی جان دیدی اس جذبے کو دنیا کا کوئی طاقت ہرا نہیں سکتا اس ملک میں پشتون قومی سوال، پارلیمنٹ کی بالادستی، محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد، آئین کی بحالی جیسے تحاریک میں شہید لطیف آفریدی کی جدوجہد شامل ہیں یہ طویل تاریخ ہے لطیف آفریدی ہمارا آخری شہید نہیں ہے لیکن ان وجوہات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں ترقی پسند عوام و اقوام کی مطالبات کیا ہے؟ کیا وہ آئین سے ہٹ کر کوئی بات کررہے ہیں؟ کیا وہ اسلام یا اقوام متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ سے ہٹ کر بات کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے کبھی بھی تعصب، تنگ نظری کی تلقین نہیں کی لیکن اس وطن کی مٹی و سر زمین پر اپنی شناخت کلچر و دیگر کے مطالبات رکھے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ بلوچستان میں تین سردار میر غوث بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل اور نواب بگٹی اسٹیٹ کے خلاف ہیں کیا بلوچستان میں صرف یہی تین سردار ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہر طبقے کا فرد شعوری طور پر سمجھ چکا ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی جاری ہے ہماری خواتین محفوظ نہیں ہے، رشیدہ زہری کو کراچی سے اٹھایا گیا 15 دن تک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ سیٹلائٹ ٹان سے خاتون کو اٹھایا گیا ہے۔ اختلاف ہو سکتا ہے بہت سے مسائل پر لیکن اب تو سارے لاشیں اٹھا رہے ہیں بلوچ، پشتون سندھی سارے لاشیں اٹھا رہے ہیں کیا اس صورت حال میں یکجہتی کی ضرورت نہیں ہے؟ پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والوں کو بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد افضل حریفال ایڈووکیٹ نے کہا کہ شہید لطیف آفریدی ایک سیاسی کارکن کی حیثیت رکھتے تھے لیکن وکلا کیلئے وہ ایک اکیڈمی تھے یہ وہ لوگ تھے جو کسی بھی اکیڈمی سے زیادہ ہمیں سپورٹ کرتے تھے انہوں نے ہمیشہ مظلوم و محکوم قوموں کے حق کیلئے صف اول کا کردار ادا کرتے رہے اور ببانگ دھل اپنی بات رکھتے تھے اور کبھی بھی نتائج کی پرواہ نہیں کی انسان کو کبھی بھی تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر عوام اتنی بے زار ہے کہ مذہب کی طرح اب سیاست بھی فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے، جب ہم تقسیم در تقسیم ہوں گے تو پھر کیسے سیاسی و قومی اہداف حاصل ہوں گے؟ ایک قانون پیش ہوا ہے جو 90 کی دہائی میں نیب کے نام سے بھی پیش ہوا تھا جس میں دو طبقے مستثنی قرار دیا گیا تھا ایک آرمی اور دوسرا اعلی عدلیہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں سچ اور ایمانداری کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا آرمی میں کورٹ مارشل اور عدلیہ میں جوڈیشل کمیشن بتایا جائے کہ اب تک جوڈیشل کمیشن نے کتنے ججز کا احتساب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے کہ عدالت کے اندر نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ ڈاکٹر لعل کاکڑ نے شہید لطیف لالا آفریدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے تاکہ باچا خان بابا خان شہید عبدالصمد اچکزئی، میر غوث بخش بزنجو جیسے اکابرین کے مشن کو آگے بڑھائیں اپنے طور پر ہر پلیٹ فارم پر جدوجہد کیلئے حاضر ہوں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طوفان بدتمیزی کی سیاست کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ ممتاز پروفیسر شوکت ترین نے کہا کہ پشتون اتحاد یا پشتون و بلوچ اتحاد کیلئے وجوہات ہونی چاہیے اس کیلئے بنوں جرگہ کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔