اگروفاق بلوچستان کے واجبات ادا نہیں کرتا تو وہ اسمبلی تحلیل کردیں گے ، وزیر خزانہ بلوچستان کا انکشاف

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) وزیر خزانہ بلوچستان انجینئر زمرک خان اچکزئی نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان کو وفاق کی جانب سے مالی عدم تعاون پر وزیراعلیٰ اس قدر دلبرداشتہ تھے کہ انہوں نے کہاکہ اگر وفاق بلوچستان کے واجبات ادا نہیں کرتا تو وہ اسمبلی تحلیل کردیں گے جس کے بعد صوبے کو اب 15ارب روپے کی ادائیگی ہوئی ہے دوسری جانب اراکین اسمبلی نے لاپتہ افراد کی بازیابی، صوبے میں بجلی اور گیس کے مسائل کے حل کا بھی مطالبہ کیا ہے۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو دو گھنٹے سے زائد کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے ہیں لیکن مذاکراتی وفد میں بلوچستان کا کوئی بھی نمائندہ شامل شامل نہیں تھا بلوچستان میں کثیر الجہتی غربت ہے ہر حکومت کے کام کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں وفاقی حکومت ہمارے وسائل اور ساحل پر تن تنہا فیصلے کرتی ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بلوچستان کا نمائندہ بھی شامل ہونا چاہیے تھا اسمبلی اس حوالے سے قرار داد منظور کرے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے میرے لگائے گئے کیس میں 2019کے فیصلے میں کہا ہے کہ سیندک پر بلوچستان حکومت کا اختیار ہے لیکن وفاقی حکومت نے ای سی سی کے اجلاس میں سیندک معاہدے میں 15سال کی توسیع کردی ہے صوبائی حکومت کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی کا موقف ہے کہ ریکوڈک معاہدے میں بھی بلوچستان کو 50فیصد حصہ ملنا چاہیے تھا وفاقی کی اسٹیٹ انڈ انٹرپرائزز نے 900ملین ڈالر کے بدلے 25فیصد حصہ لیا ہے۔ریکوڈک میں بھی بلوچستان کے بجائے کمپنی اور وفاقی حکومت کی بات سنی جائیگی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سندھ کو تیل اور گیس کی دریافت کی اجازت دے دی ہے لیکن بلوچستان کے پاس یہ اجازت نہیں حتی کہ بلوچستان میں جس قدر بد امنی، غربت، لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے یہاں بھی ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ لسیبلہ میں ایک بار پھر بس کو حادثہ پیش آیا ہے صوبے میں کوئی ٹرانسپورٹ سیفٹی پالیسی بنہیں ہے،ڈرائیوروں کا ڈرگ ٹیسٹ ہونا چاہیے اگر حکومت کے پاس آلہ نہیں ہے تو میں اپنے ذاتی خرچ سے نشہ چیک کرنے والا آلہ فراہم کرنے کو تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ بسوں کے فیول ٹینک بھی محدود کئے جائیں کسی بھی بس میں تیل اور پیٹرول لیکر جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خبیر پختونخواء تباد ہ حال ہیں انکے تنازعات کا حل مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے نکالا جائے بندوق سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے حال ہی میں کراچی جیل سے رہا ہونے والے شخص کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تین دن سے رحیم زہری اور انکی اہلیہ لاپتہ ہے ایسے اقدامات سے صورتحال مزید گھمبیر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے ملک سے باہر تھے بد قسمتی سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم حکومت کا حصہ لیں لیکن ہم حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ 5وزراء کا وفد توانائی بچت کے لئے کوئٹہ آیا وفد نے ایئر پورٹ پر بریفننگ لی اور وہیں سے چلا گیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور غلہ بانی ہے صوبے کو اس وقت صرف 400میگا واٹ بجلی مل رہی ہے جو فیصل آباد یا کسی اور شہر کے برابر بھی نہیں ہے صوبے کے لائن لاسز لاہور یار کراچی کے لائن لاسز سے بھی کم ہیں بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلوں کو صرف 4گھنٹے،کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر علاقوں کو 2گھنٹے بجلی مل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سردی شروع ہوتے ہی گیس کا پریشر ختم ہو جاتا ہے جونیپر جیسے قومی اثاثے بھی خاتمے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں بلوچستان کے لوگ چوری کریں گے یا پہاڑوں پر جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وفاق نے اگر تہیا کر لیا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو فاقے سے مارنا ہے تو یہ 400میگا واٹ بجلی بھی نہ دے۔انہوں نے کہا کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ میں 20دن سے صفائی کا عمل رکا ہوا ہے،صوبہ سیلاب سے تباہ ہے مگر اب تک کسی قسم کی امداد تک نہیں ملی۔اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی جانب سے وفاق کو بجلی اور گیس کے مسئلے کے حل کے لئے خط لکھا گیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے بلوچستان اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر ان بتائیں کہ وہ کب وفاقی حکومت کی کمیٹی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ملاقات میں بجلی او ر گیس کے مسئلے پر تبادلہ خیال اور انکا حل نکالا جائیگا۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے رکن احمد نواز بلوچ نے کہا کہ میرے حلقے میں درزی کا کام کرنے والے ایک شخص اور میاں بیوی کو لاپتہ کیا گیا ہے کہ جنکا کوئی اتا پتہ نہیں بلوچستان میں چادر اور چار دیواری کی پامالی کا سلسلہ بند کیا جائے۔بی این پی اس حوالے سے اپنا لائحہ عمل مرتب کریگی۔اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ نوشکی میں رکن صوبائی اسمبلی بابو رحیم مینگل کے گھرپر چھاپے کے خلاف خواتین نے ریلی نکالی بتایا گیا ہے کہ نوشکی میں طلباء،نوجوان لاپتہ کئے گئے ہیں سی ٹی ڈی کے نام پر کونسے لوگ ہیں جن سے خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اجلاس میں وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی شاہراہوں پر سڑک کی حالت کے علاوہ کسی نہ کسی کی غفلت سے حادثات ہورہے ہیں جنکی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیٹرول کا کاروبار روزگار کا طریقہ ہے لیکن اس میں سینکڑوں جانیں کسی صورت خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ نظام کو ٹھیک ہونے میں وقت درکار ہے لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہے وفاق میں سردار اختر جان مینگل،صوبے میں وزیرداخلہ کی سربراہی میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر کمیشن قائم ہیں کمیشن لاپتہ افراد کے مسئلے پر کام کر رہے ہیں اگر معاملے کو سنجیدیگی سے لیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ رحیم زہری اور انکی اہلیہ کے لاپتہ ہونے پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کی ہے انہوں نے بتایا کہ کسی ادارے نے دونوں افراد کے حراست میں ہونے کی تصدیق نہیں کی البتہ وہ آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے مزید معلومات لیکر فراہم کریں گے۔بی این پی کے رکن ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ جب کسی کو معلوم نہیں کہ وہ لوگ کہاں ہیں تو کیا انہیں زمین نگل گئی یا آسمان؟۔انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ دونوں لاپتہ افراد کہاں ہیں۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈرپر اظہار خیال کرتے ہوئے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن قادر علی نائل نے کہا کہ بلوچستان کے مالی بحران کے حل کے لئے اسلام آباد گئے تھے وہ اس حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کریں۔پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے کہا کہ وفاقی حکومتی اتحاد میں صوبے کی تمام جماعتیں شامل ہیں کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنا آئینی حق بھی نہیں لے سکتے۔انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کو بار بار آئینی حق مانگنے اسلام آباد جانا پڑتا ہے،میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں جب اسپیکر کی رولنگ بھی نہیں مانی جارہی تو ہم کہاں جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے ہونگے تاکہ اپنا حق لے سکیں۔صوبائی وزیر خزانہ انجینئر زمرک خان اچکزئی نے صوبے کے مالی مسائل کے حوالے سے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر اسلام آباد کا دورہ کرتے ہوئے دو ہفتوں کے دوران مختلف متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کیں، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار سے بھی ملاقات کی انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اس قدر دلبرداشتہ تھے کہ انہوں نے کہاکہ اگر وفاق بلوچستان کے واجبات ادا نہیں کرتا تو وہ اسمبلی تحلیل کردیں گے اور میں نے اسحق ڈار کو بھی اس حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کو این ایف سی کی مد میں اسکا حصہ نہیں مل رہا اگر بلوچستان کو اس کا حصہ نہیں دیا جاتا تو صوبے کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں ایسے حالات میں ہمارا اسمبلی میں بیٹھنا فضول ہے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی وزیر خزانہ نے 2021-22کی مد میں واجب الاد پندرہ ارب روپے ادا کردیئے ہیں اور 30جنوری کو مزید دس ارب روپے جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اب بھی بلوچستان کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اگر بلوچستان کو واجبات ادا نہیں کئے جاتے تو اس سے پی ایس ڈی پی کا ڈویلپمنٹ سیکٹر متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں صوبائی وزیر خزانہ یا سیکرٹری خزانہ میں سے کسی کو بھی نہیں بلایا جبکہ دیگر صوبوں کے نمائندے اجلاس میں موجود تھے انہوں نے کہاکہ بلوچستان سے معدنیات اور گیس نکل رہی ہے اسکے باوجود ہمارا حق نہیں دیا جاتا۔ پی پی ایل کے پچاس ارب روپے بقایا ہیں اور 2006 سے معاہدہ نہیں ہوا اسکے باوجود گیس سپلائی کی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان گیس پر سبسڈی دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے نہیں بچا جائے گا ملکی صورتحال ابتر سے ابتر ہوگی انہوں نے کہاکہ وفاق کو بلوچستان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے چاہئے مگر وفاق تعاون نہیں کررہا اگر ایسی صورتحال رہی تو ہم صوبے سے گیس کی ترسیل بند کرنے پر غور کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ڈویلپمنٹ سیکٹر کے متاثر ہونے پر ہم سب کو حکومت اور اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے اراکین کو ملکر اسلام آباد جانا چاہئے اور اپنا موقف انکے سامنے رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ سیلاب کے مد میں آنیوالی امداد میں سے ایک روپیہ بھی بلوچستان کو نہیں ملا جب اکائیاں مضبوط ہونگی تو فیڈریشن مضبوط ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ریکوڈک معاہدے میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین سب بیٹھے تھے کم سے کم ان کو یہ پڑھنا چاہئے تھا کہ کیا معاہدہ ہوا ہے اگر اس میں کوئی کمی کوتاہی ہے تو صوبائی کابینہ اس میں رد و بدل کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ صوبے کے بقایا جات ادا کریگی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وفاقی اسکے شیئرز میں کٹوتی نہیں کرسکتی۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی زابد ریکی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے مہنگائی ختم کرنے سے متعلق بڑے بڑے دعوے کئے مگر مہنگائی میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی منظوری کے بعد مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم اگر ان حالات پر قابو نہیں پا سکتے تو انہیں مستعفی ہو جانا چاہئے انہوں نے کہاکہ صوبائی وزیر داخلہ کی سربراہی میں قائم کمیشن کا اجلاس طلب کیا جائے تاکہ صوبے کے مسائل کے وجوہات تلاش کئے جاسکیں۔ اجلاس میں وزراء اور محرکین کی عدم موجودگی پر وقفہ سوالات موخر جبکہ توجہ دلاؤ نوٹسز نمٹا دئیے گئے۔اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ وزراء نہیں آئے لیکن سیکرٹری صحت نے بھی آنے کی زحمت نہیں کی۔وزیراعلیٰ وزراء کو پابند کریں کہ وہ اسمبلی آئیں۔انہوں نے کہا کہ رولنگ دی کہ سیکرٹری صحت آئندہ اجلاس میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے