بی پی ایل اے قیادت گالم گلوچ کی پشت پناہی ترک کردے،پروفیسرآغازاہد
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) سابق صدر بی پی ایل اے پروفیسر آغا زاہد نے کالج اساتذہ میں جنم لینی والی حالیہ بے چینی پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی پی ایل اے کی موجودہ قیادت نے پروفیسرز کی نمائندہ تنظیم کو کہیں منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں چھوڑا، مسلسل دو سال تک گالی برگیڈ کے ذریعے پروفیسرز کے خلاف جو کارڈز کھیلے جاتے رہے وہی کارڈ سیکرٹری کے خلاف کھیلنے کی کوشش کی گئی لیکن اس ایڈونچر کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج تنظیم بد ترین زوال کا شکار ہوگئی ہے، فرد واحد کی ایکس کیڈر پوسٹ کے لئے بی پی ایل اے کے مستقبل کو داؤ پر لگانے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی بی پی ایل اے قیادت گالم گلوچ کی پشت پناہی ترک کردے،۔ اپنے جاری کردہ بیان میں پروفیسر آغا زاہد نے کہا کہ بلوچستان پروفیسرز اینڈلیکچررز ایسوسی ایشن کالج اساتذہ کی نمائندہ تنظیم ہے جسے ہم نے دن رات محنت اور جدوجہد سے فعال اور منظم کیا مگر افسوس کا مقام ہے کہ یکجہتی کے نام پر تنظیم کو پارہ پارہ کرنے کی سازشیں پچھلے دو سال سے جاری ہیں بی پی ایل اے کی موجودہ نااہل، ناکام اور غیر ذمہ دار قیادت اس وقت بننے والی صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ دو سال تک تنظیم کے اندر پروفیسرز کو تقسیم کرکے اپنے ذاتی مفادات سمیٹنے کے لئے کبھی سیٹلرز کاکارڈ کھیلا گیا لوکل اور نان لوکل کی لکیر کھینچ کر برادری کو تقسیم کرنے کی سازش کی جاتی رہی تو کبھی خواتین کی ہراسمنٹ کا شرمناک کارڈ کھیل کر ایکس کیڈر پوسٹوں تک رسائی حاصل کی گئی موجودہ نااہل کابینہ نے گالی برگیڈ کے ذریعے جو کارڈ کھیلے گئے وہی کارڈ سیکرٹری کے خلاف اپلائی کئے گئے جہاں سے نتیجہ اس کے برعکس آگیا اب انہیں منہ چھپانے کے لئے بھی جگہ نہیں مل رہی یکجہتی کا چورن بیچنے والوں نے برادری کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے بی پی ایل اے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے انہوں نے کہا کہ حواس باختگی میں کئے گئے غیر دانشمندانہ فیصلوں کے باعث بی پی ایل اے کی فعال اور متحرک تنظیم زوال کا شکار ہوگئی ہے جس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ میں ہزاروں کالج اساتذہ کی موجودگی کے باوجود بی پی ایل اے کی مرکزی کال پر سو مظاہرین بھی اکھٹے نہیں کئے جاسکے۔ کالج اساتذہ نے مرکزی کابینہ کی مرکزی کال پر احتجاج میں شریک نہ ہو کربتا دیا ہے کہ ”مائی باپ“ کے ”کچن کیبنٹ“ کی باتیں لیک ہو کر پوری برادری کے سامنے آچکی ہیں پروفیسرز باشعور ہیں وہ اپنی تنظیم کو کسی رچائے گئے ڈرامے کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں پروفیسرز کو عزت و تکریم دی جاتی ہے پروفیسرز کو گالم گلوچ اور بدتہذیبی زیب نہیں دیتی افسوس کا مقام ہے کہ تنظیم کے اندر مخالفین کے خلاف جو گالم گلوچ، بدتہذیبی اور کرپشن کے الزامات عائد کئے جاتے رہے بعینہ وہی بد تہذیبی، گالم گلوچ اور کرپشن کے ایسے الزامات جن کے حوالے سے کسی قسم کے ثبوت نہیں وہ سیکرٹری اور وزیر تعلیم کے خلاف عائد کئے گئے پروگریسیو کے دوستوں نے گالی برگیڈ کی گالیاں اور الزامات خاموشی سے برداشت کئے وہ شایداسی غلط فہمی میں تھے کہ وہی چیزیں اسی انداز میں سیکرٹری اور منسٹر پر اپلائی کرکے من پسند نتائج حاصل ہوں گے لیکن معاملہ اس کے الٹ ہوگیا اور اب معاملہ دراز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔جب تک گالم کلوچ کلچر کا خاتمہ نہیں ہوتا اور گالم کلوچ کی پشت پناہی ترک کرکے تنظیمی کے اندرونی فورمز اور ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسرزکے باوقار اور تہذیب شائستگی پر مبنی نمائندگی کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے یہ بحران جاری رہے گا کیونکہ تنظیم کسی کے عزت نفس کی قیمت پر نہیں چلائی جاسکتی۔پروفیسرز آغا زاہد نے کہا کہ بی پی ایل اے کے جاری بحڑان کی تمام تر ذمہ داری موجودہ کابینہ پر عائد ہوتی ہے جو سیکرٹری اور منسٹر کو بھی پروگریسیو کا رکن سمجھ کر گالی برگیڈ کے ذریعے فتح کرنے نکلے تھے لیکن یہ ایڈونچر ان کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے ان کی بلیک میلنگ، سیٹلر نان سیٹلر اور خواتین ہراسمنٹ کے کارڈ اب فرسودہ ہوچکے ہیں اور پروفیسر برادری اب مزید کسی شخص کے شخصی مفاد کے لئے تنظیم کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔