ہائیکورٹ کا اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کل ہی کرانے کا حکم
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کل ہی کرانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت کا محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس میں جسٹس ارباب محمد طاہر نے حکم دیا الیکشن کمیشن 101 یونین کونسلز پر 31 دسمبر ہی کو الیکشن کرائے۔قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں 101 یونین کونسلز پر 7 سے 10 دن میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد پر رضامندی ظاہر کی تھی، جس پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔کیس کی سماعت جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی، جس میں وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل جب کہ پی ٹی آئی وکیل سردار تیمور اسلم پیش ہوئے۔ اس موقع پر ڈی جی الیکشن کمیشن بھی دیگر حکام کے ساتھ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب پیش کردیا گیا۔ پی ٹی آئی کے وکیل سردار تیمور نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ الیکشن سے صرف 11 دن پہلے یو سیز کی تعداد بڑھائی گئی۔ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر حکومتی فیصلہ نہیں مانا اور مؤقف اختیار کیا کہ نیا نوٹیفکیشن موجودہ شیڈولڈ الیکشن پر لاگو نہیں ہوگا۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا بوجھ عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کا کبھی نہیں کہا تھا۔ الیکشن کمیشن نے مجوزہ قانون سازی کا سہارا لیا، کیونکہ صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث اسے قانون سازی نہیں، مجوزہ بل ہی کہا جائے گا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول کسی عدالت کے سامنے چیلنج ہوا؟۔ اگرنہیں تو الیکشن شیڈول اب بھی موجود ہے۔ جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ نہیں! بلدیاتی انتخابات کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ہم آپ کی رٹ پٹیشن منظور کریں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات کرا سکتا ہے؟۔وکیل نے اس موقع پر کہا کہ الیکشن کمیشن خود کہہ چکا ہے کہ تمام تیاری مکمل اور صرف سامان کی ترسیل باقی ہے۔ پورا شہر انتخابات کے لیے تیار تھا، الیکشن کمیشن بھی 27 دسمبر تک راضی تھا۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے پھر سوال کیا کہ ہم آپ کی درخواست منظور کریں تو کیا کل الیکشن ہوجائیں گے؟۔
وکیل نے جواب دیا پولنگ کی تاریج کل کے بجائے پرسوں رکھ لیں۔ کل خود الیکشن کمیشن نے کہا کہ صرف پولنگ کا سامان تقسیم کرنا ہے۔ پولنگ کی تاریخ تو پہلے بھی الیکشن کمیشن نے آگے کی تھی۔ الیکشن کمیشن بے شک ایک ہفتے بعد انتخابات کرا لے۔جس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب دیا گیا کہ وہ تاریخ ہم نے کرسمس کی چھٹیوں کے لیے آگے کی تھی۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن حکام کی آج میٹنگ ہے۔ وقت کی کمی کے باعث پیراوائز کمنٹس داخل نہیں کرا سکے۔ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کیا وفاقی حکومت اتنی نااہل ہو گئی ہے کہ پٹیشن کا تحریری جواب داخل نہ کر سکے؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر جواب تیار کر بھی لیں تو وزارت قانون سے اس کی منظوری کے بعد داخل ہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ہم الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ معطل کردیتے ہیں، آپ میٹنگ کرتے رہیں۔ کل آپ کی رضا مندی سے آج کا وقت رکھا گیا تھا ۔ صبح سے وقت تھا اسی وقت میٹنگ کیوں رکھی گئی؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ کی یقین دہانیوں کا کیاہوا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو جواب دیا کہ یونین کونسلز کی تعداد بڑھانا یا ترمیم کرنا وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔ عدالت نے پوچھاکہ اس سال کے دوران اس صوابدید کا کتنی بار استعمال ہو چکا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے کہا کہ اس سے پہلے جون میں یونین کونسلز بڑھائی گئی تھیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ مردم شماری 2017 کے بعد ہوئی نہیں کس بنیاد پر پتا چلا آبادی بڑھ گئی؟۔
بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کا اپنا کنڈکٹ بھی عدالت دیکھے۔ یہ رکن اسمبلی ہیں مگر وہاں جا کر اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی قانون سازی میں انہیں پارلیمنٹ ہونا چاہیے تھا۔ڈی جی لاالیکشن کمیشن نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اب بھی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کل الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں ؟۔ جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے جواب دیا ہم ابھی اپنے دلائل میں تفصیل سے بتائیں گے۔
عدالت نے ڈی جی الیکشن کمیشن کو روسٹرم پر بلا کر سوال کیا کہ آپ بتائیں 30 جون کے بعد آپ نے کیا کیا پراسیس کیا۔کیا بیلٹ پیپر پرنٹ ہو چکے ہیں؟ عملے کی تربیت ہو چکی؟ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا جی بیلٹ پیپر بن چکے اور عملے کی تربیت بھی ہو چکی ہے۔ عدالت نے پوچھا بس پھر یہ بتا دیں کہ کتنے دن سامان کی ترسیل میں چاہییں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ 7سے 10 دن میں پرانے شیڈول پر الیکشن کروا سکتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا 7سے 10 دن کیوں؟ تیاری تو ساری ہوُچکی تھی۔ ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پولنگ کے لیے ہالز بکنگ وغیرہ دوبارہ کرنا ہوتی ہے۔
عدالت نے کہا چلیں پھر تو آپ کو 2 دن چاہییں ہوں گے۔ ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا ہمیں سکیورٹی وغیرہ لینے کے لیے بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ اس موقع پر عدالت نے کہا آج ہی اس کیس کا ہم فیصلہ سنائیں گے۔ عدالت نے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، جسے بعد ازاں سناتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کل 31 دسمبر ہی کو منعقد کروائے۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ذمے دار وفاقی و صوبائی حکومتیں ہیں۔بلدیاتی انتخابات التوا سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری جواب جمع کروا دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد نہ ہونے کی ذمے دار صوبائی اور مرکزی حکومتیں ہیں۔
الیکشن کمیشن نے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں انتخابات کے قریب آنے سے قبل قوانین میں تبدیلی نہ کرنے اور آئین کے آرٹیکل 140 اے و الیکشن ایکٹ 219 میں ترمیم کی تجویزدیتے ہوئے کہا ہےکہ بلدیاتی انتخابات کرانے سے متعلق آئینی ذمے داری پوری کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ الیکشن کمیشن نے بروقت بلدیاتی انتخابات کا حکم دیا، جسے ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔ سیکشن 219 (1) کے تحت لوکل گورنمنٹ قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئےانتخابات کروائیں گے، تاہم جب انتخابات کی تیاری مکمل ہوتی ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے قوانین میں تبدیلی سےالیکشن کے بروقت انعقاد میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 219 (1) اور (4) آپس میں متصادم ہیں۔ سیکشن 219 (1) لوکل گورنمنٹ قوانین کے تحت صوبائی اور مرکز میں بلدیاتی الیکشن کا مینڈیٹ دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے لیے 120 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہوتا ہے، مگر مرکزی و صوبائی حکومتیں قوانین میں تبدیلی کرتی ہیں تو انتخابات کرانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔جواب میں وضاحت کی گئی ہے کہ قانون میں مجوزہ ترمیم کا مقصد مرکز یا صوبائی حکومتوں کو الیکشن کے قریب آنے سے قبل قوانین میں تبدیلی سے روکنا ہے۔الیکشن کمیشن نے اپنے جمع کروائے گئے جواب میں عدالت سے درخواست گزاروں کی استدعا مسترد کرنے کی اپیل کی تھی۔