جے یو آئی اپنے منشور کے مطابق ہر صوبے کو اسکے وسائل کا مالک سمجھتی ہے، مولانا فضل الرحمان

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی صورتحال میں بہتری تب ممکن ہے کہ جب تمام ادارے اپنی آئینی دائر ے کار میں رہ کر کام کریں اداروں کے رویوں میں تبدیلی آئین کے مطابق آنی چاہئے،بڑی طاقتوں نے جمہوریت کا معیار اپنے مطابق طے کررکھا ہے،پاک چین دوستی جب اقتصادی شراکت داری میں بدلی تو دو ہزار چودہ میں اسے سبوتاژکیا گیاپاکستان اس وقت تنہا ہوگیا تھاایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اپنے منشور کے مطابق ہر صوبے کو اسکے وسائل کا مالک سمجھتی ہے ریاست کو بچانے کیلئے چھوٹے صوبوں کو حق تسلیم کرنا ہوگا ملکی استحکام کیلئے امن ناگزیر ہے پاکستان کو اپنے پاوں پر کھڑاکرنے کیلئے جامع پالیسی تشکیل دینا ہوگی نیا عمرانی معاہدہ کی تشکیل عملی طور پر ممکن نہیں عالمی اداروں نے سیاسی اور اقتصادی آزادیاں سلب کررکھی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قرآن مجید انسانی حقوق کا سب سے بڑا ضامن ہے بڑی طاقتوں نے جمہوریت کا معیار اپنے مطابق طے کررکھا ہے فوج کے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ ہم نے پہلے ہی کرلیاتھا ہمارے رائے کے مطابق سب پاکستان کے شہری برابر ہیں غیر جانبدار رینے کا اعلان دل کو اطمینان کیلئے تو اچھا ہے عمل درآمد کی ضرورت ہے ماضی میں بھارت کو رویہ تعاون کرنے والا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا پاکستان معاشی لحاظ سے کمزور اسلئے جنگ لڑنے کے قابل شاہد نہیں فوج ملک کا ادارہ ہے اس سے مقابلہ نہیں اگر اداروں میں توازن ریے تو غیر جانبداری قائم رہ سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاک چین دوستی جب اقتصادی شراکت داری میں بدلی تو دو ہزار چودہ میں اسے سبوتاژکیا گیاپاکستان اس وقت تنہا ہوگیا تھاایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ ملک آئین اور قانون کے بغیر نہیں چل سکتا، پاکستا ن کا آئین میثاق ملی کی حیثیت رکھتا ہے پاکستان میں رہنے والا ہر پاکستان اگر خود کو ایک قوم تصور کر تا ہے تو اسکی ضمانت اور مہور ہمارا آئین ہی دیا کر تا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ وکلاء سے زیا دہ کو ن آئین کو جانتا ہوگا وکلاء ماحول آئین کے مطالعہ سے ہی چلتا ہے جس کی روشی میں پاکستان کی عدلیہ کی رہنمائی کر تے ہیں، آئین کا بنیادی دھانچہ چار عناصر پر مشتمل ہے اگر بنیا د ی دھانچے کا کا ایک بھی ستو ن بھی گرتا ہے تو آئین گر جا تا ہے اور پھر ایک نئے آئین ساز ی کی ضرورت ہو تی ہے ،آئین بنیا د ی دھانچہ پہلا ستون اسلام، دوسرا ستون جمہوریت، تیسرا ستون پالیمانی طرز حکومت اور چو تھا ستون وفا قی نظام ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئین خود ان چار بنیادی عناصر کو آئین کا دھانچہ قرار دیتا ہے ہمارا ہا ں اگرکمی ہے توعمل در آمد کی ہے، ملک کے نظام میں عدم توازن تب آتا ہے جب ہم آئین کے دئے ہوئے دائر ہ کار سے تجاوز کر تے ہیں، جب ایک ادارے کو طاقتور اور باقی اداروں کوکمزور کر دیا جاتا ہے عدلیہ اپنے حدود میں نہیں رہتی، انتظامیہ اپنے حدود سے تجاوز کر تی ہے توظاہر سی بات ہے فقری اضطراب تو آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم آئین کے دئے ہوئے اصولو ں اور دائرہ کار کے تحت اپنے ذمہ داریاں پوری نہیں کر تے، جب ہم داخلہ طورپر کمزور ہو تے ہیں تو دنیاء بھی ہماری کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا تی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بظاہر تو ہم ایک آزاد قوم ہیں ہر 14اگست کو ہر آزادی کا دن بھی منا تے ہیں اور 75سال سے منا بھی رہے ہیں لیکن سن 1945ء کے جنگ عظیم دوائم کے خاتمے کے بعد باقاعدہ طوپر نوابا دیاتی نظام کا خاتمہ ہوا لیکن عالمی اداروں اور عالمی معا ہدات کے تحت ہم جیسے ملکوں کو کنٹرول کیا جا تا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل تر قی پزیر دنیاء کو کنٹرول کر تے ہیں وہ ملک جو رقبے کے لحاظ بھی بڑا ہو اسے عالمی فہرست میں کمزور کر نا، اپنے اختیارات کے پنجے گاڑنا انکی حکومت عملی ہوا کر تی ہیں پاکستان اس زمر ے میں آتا ہے ہماری اپنی پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن عالمی ادارے میں ایک قانو ن آجائے جو ہمار ے ملک آئین کے ساتھ متصادم ہو تو میرے اپنے ملک کی سر زمین پر اپنا آئین، قانون غیر میسر ہو جاتا ہے اور عالمی ادارے کا فیصلہ ہمارے ملک پر میسر کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ جو قانون سازیاں ہمار ے ملک میں ہو رہی ہیں اس نے ہماری خاندانی زند گی کی شریعت کے حدود کو پامال کر دیا ہے جبکہ میراآئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ ر ب العالمین کی ہے اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہے قر آ ن اور سنت کے مطابق قانون نہیں بنایا جائے گا اور ہر قانون قرآن اور سنت کے طابع ہوگا جو کی وائے لیشن ہو رہی ہے ہم ملک کے اندر کے لوبیز کے ساتھ بھی نظریا تی تصادم میں ہو تے ہیں اور بین القوامی دباؤ میں بھی رہ کر قانون سازیا ں کر تے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہو ں میرے پور زندگی مشاہدات میں بھری ہوئی ہے آج اقوام متحدہ نے اپنے پروگرام کے تحت جو قرارداد پاس کی ہے اس وقت سعودی عرب کی حکومت نے اسے مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر عالمی قوت کے خواہش کو مستردکریں تو آپ پر اقتصادی قدغنے لگتے ہیں صرف یہ نہیں کہ عالمی ادارے آپکو امدادی کی قسط جو آپکا حق بنتا ہے وہ دینے سے انکار کر تے ہیں انہو ں نے خود کو چابی کی حیثیت قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیا سی اور اقتصاد ی حوالے سے ہمیں اپنا تابع بنا یا جاتا ہے اور جس کی پیشن گوئی حضور ؐ نے خود فرمائی ہے، سیا سی، اقتصادی آزادی بھی ہماری سلب کر کے با ہر سے کنڑول کیاجا رہا ہے قر آ ن مجید انسان حق کے لئے دیا ہو انظام ہے حضور ؐ کی تمام تعلیمات انسانی حقوق کے لئے ہے ہم اپنے ماحول میں لفظ امن استعما ل کر تے ہیں لیکن یہ تمام تر انسانی جا ن، مال اور عزت آبرو کے حق کا عمادہ کر تا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تما م قوانین انسان کے حق کے تحفظ اور حق تلفی ہو تی تو حق کی تلا فی کیسے ہو تی ہے اس بنیاد پر بنتے ہیں،آج انسانی حقوق کے سب سے بڑے قاتل ہم بنے ہو ئے ہیں جس طرح ہم پر اپنی رائے کمپوز کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فوج ہماری ہے لیکن عالمی قوتو ں کا دباؤ رہتا ہے کہ پاکستان کی فوج ہمارے لئے استعمال ہو ایٹم بم میرا لیکن اسکے استعمال کا اختیار انکے ہاتھ میں ہو اور ہم بین القوامی معاہدات کے پابند بن جاؤ لیکن اگر پاکستان ایٹم بم بنتاہے تو وہ جرم ہے اگر اسرائیل اور انڈیا کے پاس کے ایٹم بم ہوتو اس پر کسی کو اعترا ض نہیں ہے تاکہ اپنے اپنے اثاثوں سے اختیار چھین لیا جائے یہ ہے ترقی پزید ممالک کو اپنا غلام رکھنے کے فلسفے یہ تمام وہ چیزیں ہیں جنہیں ہم نے قومی سطح پر سوچنا ہے لیکن ہم نے قومی سطح کی سوچ کی صلاحیت چھین لی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جیسے میں پاکستان کے شناخت کارڈ کے تحت پاکستانی کا شہرہو ں ویسے ہی بیو کریٹ اور جنرل بھی پاکستان کے شناخت کارڈ کے تحت پاکستان کا شہری ہے شہری ہو نے میں ہم برارہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کمزور ہوا ہے 70پہلے ہم طاقتور تھے لیکن ا ب ہم کمزور ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے