روس سے تیل اور گیس کی خریداری پر پابندی نہیں،امریکا

واشنگٹن(ڈیلی گرین گوادر)امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ہم جان بوجھ کر توانائی کے شعبے (تیل اور گیس کی خریداری) کو روس پر عائد پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیتے رہے ہیں.

عمران خان پر حملے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے ہی عمران خان پر کی شدید مذمت کی تھی، ہم ہلاک ہونے والے فرد کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں۔ ہم عمران خان سمیت تمام زخمیوں کی جلد اور مکمل صحت یابی کی امید کا اظہار کرتے ہیں۔

نیڈ پرائس نے کہا کہ سیاست میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔ ہمیں ان واقعات پر تشویش ہے۔ ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تشدد، ہراسانی اور دھمکیوں سے باز رہیں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کریں۔ ہم ایک جمہوری اور پرامن پاکستان کے لیے پرعزم ہیں اور ہم پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا ہے اس پر ہمیں تشویش ہے۔ تمام فریقوں کو کبھی بھی تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ انہیں اختلاف کا اظہار پرامن طریقے سے کرنا چاہیے، سب کو اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی ہونی چاہیے لیکن تشدد کبھی بھی اس کا حل نہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی کی ایک طویل تاریخ اور جمہوری شناخت ہے۔

نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم دنیا بھر میں آزادی صحافت کے بارے میں اپنے خدشات اٹھاتے رہتے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ بھی بات کرتے ہیں اور اکستانی حکام کے ساتھ اس حوالے سے گفت و شنید جاری رکھیں گے۔ آزاد صحافت اور باخبر شہری کسی بھی قوم اور اس کے جمہوری مستقبل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

بھارت کے روس سے تیل اور گیس کی خریداری کے متعلق پوچھے گئے سوال پر نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم جان بوجھ کر توانائی کے شعبے (تیل اور گیس کی خریداری) کو روس پر عائد پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیتے رہے ہیں۔ بھارت روس سے تیل اور توانائی کی دیگر اقسام کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے- یہ روس پر عائد کی گئی پابندیوں کے خلاف نہیں۔

نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ روس کے ساتھ معمول کے مطابق کاروبار کا وقت نہیں ہے، عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ روس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو کم کریں، روسی تیل اور گیس پر اپنا انحصار ختم کر دیں۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس حقیقت کا مشکل طریقہ سیکھ لیا ہے کہ روس توانائی کا قابل اعتماد ذریعہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ناصرف یوکرین اور خطے کے مفاد میں ہے بلکہ یہ بھارت کے اپنے دو طرفہ مفاد میں بھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے