جسٹس اطہر من اللہ کا دورہ اڈیالہ جیل، قیدیوں کیلیے خصوصی شکایات سیل قائم
راولپنڈی(ڈیلی گرین گوادر) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا اور وہاں قیدیوں کے لیے شکایت سیل قائم کرنے کا حکم دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق دورے کے دوران چیف جسٹس کو اڈیالہ جیل کی تازہ صورتحال پر بریفنگ دی گئی اور جیل میں تشدد سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کی گئی۔ چیف جسٹس کی آمد پر انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی مشتاق احمد اور سیشن جج اسلام آباد بھی اڈیالہ جیل پہنچ گئے۔سینئر سول جج راولپنڈی بھی سیشن جج کے ہمراہ تھے۔
چیف جسٹس نے راولپنڈی کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات اور قیدیوں کی مکمل فہرست طلب کرتے ہوئے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ سیشن ججز کو اڈیالہ جیل کا ریگولردورہ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جیل کے دورے میں دورہ کے مقاصد کو فوکس رکھیں۔
چیف جسٹس نے قیدیوں کے لیے شکایت سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مجسٹریٹ ، بار کا نمائندہ ، ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا صدر اس کے ارکان ہوں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے زیر نگرانی اڈیالہ جیل شکایت سیل نوٹیفائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے قیدیوں کے لیے کیس ای فائل سسٹم متعارف کرانے کا بھی حکم دیا۔
اڈیالہ جیل کے دورے میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ارباب محمد طاہر، سیشن جج ایسٹ عطا ربانی، سیشن جج ویسٹ طاہر محمود خان بھی شریک تھے۔آئی جی جیل خانہ جات ملک مبشر اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اعجاز اصغر نے ججز کو بریفنگ دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلی بار کے دورے کے بعد جیل سے متعلق بہتری کا فیڈ بیک آیا ہے ۔ جیل حکام کام میں بہتری لائے ہیں، امید ہے اس میں مزید بہتری ہو گی، لیکن ابھی بھی قیدیوں کی کچھ شکایات آرہی ہیں۔ جیل کے اندر بہت سخت کرپشن ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہیں، جو شکایت کرتا ہے ان کو یہاں تنگ بھی کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کرپشن ، مارنا ، گالیاں دے کر نکالنا ، قیدیوں کے سامان کو نکال لینا بھی غیر اخلاقی عمل ہے۔ یہ کلچر آہستہ آہستہ تبدیل ہو گا، آپ کو ڈسپلن قائم رکھنا ہے ۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایسا میکنزمہونا چاہیے کہ جس قیدی کی ضمانت ہو، ڈسٹرکٹ کورٹ سے آپ کو آن لائن اطلاع مل جائے۔
جیل حکام نے بتایا کہ پچھلے 2 ہفتوں کے اندر درخواست گزار قیدی 3 اہل کاروں سے بدتمیزی کر چکا ہے۔ 15، 20 لوگوں کا جو گینگ بنا ہوا ہے، وہ سرعام اپنے مخالف کو دھمکیاں لگاتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کرپشن اور حراست کے دوران ٹارچر نہ ہو۔ باقی آپ جیل مینوئل کے مطابق کارروائی کر سکتے ہیں۔ ہر قدم پر پیسے ڈیمانڈ کرتے ہیں، یہ ایسا سلسلہ ہے جس کو دُور کرنے میں وقت لگے گا۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اعجاز اصغر نے بتایا کہ جیل میں 6300 قیدیوں کے لیے 34 اسٹاف ممبر ہیں۔ مرد قیدیوں کا ایک اور خواتین قیدیوں کے دو ڈاکٹرز ہیں۔ دِن کے لیے جیل میں 4 ڈاکٹرز چاہییں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ 1600 سے زائد قیدی اسلام آباد کے بھی ہیں، وفاقی حکومت اپنے ڈاکٹرز یہاں کیوں نہیں رکھتی؟۔
آئی جی جیل خانہ جات نے بتایا کہ 6 ارب روپے سے پنجاب میں 5 ماڈل جیلیں بنائی جا رہی ہیں۔ اڈیالہ جیل میں مانیٹرنگ کے لیے خصوصی سیل بھی قائم کردیا گیا۔جیل حکام نے بتایا کہ اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی گنجائش 3 ہزار ہے جب کہ اس وقت 6056 قیدی حوالات میں قید ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جیل میں قیدیوں پر ٹارچر، تشدد کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس اڈیالہ جیل سے روانہ ہوگئے۔