راہشون سردار عطاء اللہ مینگل
تحریر:اختر علی خان بلوچ
ملتان جب میونسپل کمیٹی سے کارپوریشن نہیں بنا تھا تو اس کے ایڈ منسٹریٹر میاں مظفر الدین تھے جو میرے ایک مہربان تھے اور وہ اس خصوصی عدالت کے خصوصی مجسٹریٹ تھے۔ جو بغاوت و غداری کے ان مقدمات کی سماعت کررہی تھی جس میں دیگر بزرگوں کے علاوہ سردار عطاء اللہ مینگل بھی شامل تھے۔ ایک دن میاں مظفر الدین کو ملنے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ کل سردار مینگل کا بیان ریکارڈ کررہے ہیں یہ جان کر میرے اندر ایک تجسس آمیز تحریک پیداہوئی کہ میں ان کو دیکھوں میاں صاحب سے گزارش کی اور انہوں نے ایک سبیل پیدا کردی۔
سردار عطاء اللہ مینگل کو پہلی بار مجھے ایک عدالتی ماحول میں دیکھنے سننے اور کچھ کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ مغلوب الغضب ہوکر اسپیشل مجسٹریٹ کو ان کی اوقات بتانے اور ان کے حکومتی بڑے بڑوں کو ان کی حیثیت جتانے کیلئے کمال جرأت مندی سے بے نقطہ سنارہے تھے۔ مجسٹریٹ صاحب کو پسینے آ رہے تھے اور وہ بار بار اپنے ریڈر کو ان کے قابل اعتراض الفاظ کو ریکارڈ سے حذف کرنے کا اشارہ دے رہے تھے۔ یہ منظر عمومی میرے لیے اس اعتبار سے انوکھا اور غیر معمولی تھا کہ ایک ملزم عدالت میں جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کھڑے ہوکر جرأت و جسارت کا اس قدر بے تحاشا اور بے محابانہ مظاہرہ کررہا تھا کہ توہین عدالت کے ضابطے بھی دم بخود تھے۔ اسپیشل مجسٹریٹ جو ذاتی طور پر بے حد شریف اور اوپر کے احکامات کا تابعدار بندہ تھا اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے مشکل ترین لمحات سے دو چار تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ بلوچستان کا سردار اپنے پتلے دبلے جثّے کے اندر بڑا دل رکھتا ہے اور کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ حاضرین عدالت میں میرے نوجوان دوست اشفاق احمد خان رند وکیل بھی موجود تھے۔ جو بعد میں ویت نام میں پاکستان کے سفیر بنے، میں نے ان سے جب سردار مینگل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حاکم وقت نے اس شخص کو توڑنے اور گرانے کے لیے جعلی مقدمے بنائے ہیں۔ اس کے افراد خانہ کو گرفتار کیا ہے، اس کی قوم کو بمباری اور غارت گری کا نشانہ بنایا ہے۔ اور ان کے خان (خان قلات) کو بلا جواز نظر بند کردیا ہے۔ اور یہ سب کچھ وہاں کے ایک مقامی اسسٹنٹ کمشنر کی رپورٹ پر ہورہا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ برسوں تک جو غالباً اس شرے کے آخر تک قائم رہا۔ میرے والد مولانا نور احمد خان فریدی کے تعلقات سردار مینگل سے اس عشرے کے اوائل سے ہی تھے عام طور پر ان کے درمیان خط و کتابت ہوتی تھی بعد میں میرے برادر خورد میر چاکر خان (بلوچی دنیا) بھی ان کے قریب ہوگئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی قید و بند سے رہائی کے بعد ان کو دیکھنے سننے کے مواقع کوئٹہ، کراچی، خضدار اور بیلہ وغیرہ کی مختلف تقریبات و اجتماعات میں میسر آئے ایک دوبار خان قلات، امیر احمد یار خان مرحوم کے پیغامبر کی حیثیت سے بھی ان کو ملنے اور ان سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوا، ان کی خود اعتمادی، جرأت گفتار اور شعلہ آفرینی نے ایک عظیم خلقت کو متاثر و گرویدہ کیا۔ وہ ایک طویل مدت تک لاکھوں دلوں کی دھڑکن اور ایک ہیرو کی طرح قبائلی دنیا میں مرکز نگاہ بنے رہے سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ان کے اندر کا سلگتا ہوا تندور ٹھنڈا ہوجائے گا ان کے اندر کا سرکش ایجی ٹیٹر آخر کار پالی ٹیشن بن جائے گا اور ان کے مزاج میں ٹھہراؤ اور لچک پیدا ہوجائے گی۔ اور وہ اپنے سب سے پسماندہ علاقے کی صدیوں قیم روایتی محرومیوں اور موجودہ عہد میں پاکستان کے نااہل طالع آزما حکمرانوں کے ہاتھوں پہنچنے والی نا انصافیوں کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وہ بجا طور پر سمجھتے تھے اور ہم بھی پر امید تھے کہ پس نظر اور لاشعور کی تلخیوں اور شعوری عمر کے آغاز میں ہی جگر خرچ آزمائشوں اور پے در پے صدمات کے باعث ان کے مزاج میں جو جارحیت اور تلخی در آئی ہے۔ اور وہ پیکر احتجاج بن گئے ہیں جب بطور سردار قبیلہ منصبی فرائض اور ذمہ داریوں اور سیاسی طور پر جب امورِ مملکت کے داخلی و خارجی اسرار و رموز اور پوشیدہ حقیقتوں سے ان کو واسطہ پڑے گا تو ان میں تبدیلی آجائے گی۔ اعصابی اور ذہنی تناؤ کم ہوجائے گا اور پھر افق سیاست پر ایک ایسا نرم خو متحمل مزاج اور مد برورمز آشنا عطاء اللہ مینگل نمودار ہوگا جو قائد و رہبر کے طور پر میر کارواں بنے گا۔ اہل سیاست کا سمبل بنے گا۔ مایوس و مردہ دلوں کیلئے پیغام حیات ثابتہ وگا۔ غرض بے شمار توقعات بے پناہ محبتیں، آرزوئیں اور دعائیں انک ے گرد و پیش اور شامل حال تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد ایوان اقتدار میں داخل ہونے سے پہلے کوئٹہ کے بلدیہ ہاؤس میں سردار مینگل، میر غوث بخش بزنجو، نواب بگٹی، نواب مری، ہاشم غلزئی، گل خان نصیر، عبد الواحد کرد وغیرہ سمیت بی ایس او کے لیڈروں اور ورکروں کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس منعقد ہوئی، کانفرنس کے انعقاد سے پہلے جبکہ تمام صحافی پیسٹریاں کھانے میں مصروف تھے ایک نوجوان میرے پاس آیا (میں صحافی کی حیثیت سے شریک تھا)اور کہا کہ لیڈروں کا فیصلہ ہے کہ آپ کانفرنس سے اٹھ جائیں میں نے حیرت سے دیکھا اور پھرخاموشی سے کانفرنس ہال سے باہر نکل آیا۔ اس عمل سے پارٹی کے چند نمایاں عہدیدار جن میں زمرد حسین، لالہ محمد نواز خان اور میر عبد الرحمن کرد شامل تھے بطور احتجاج کانفرنس سے اٹھ کر میرے ساتھ کیفے ڈان میں آ بیٹھے۔ ملال یہ نہیں تھا کہ مجھے پریس کانفرنس سے نکالا گیا۔ فکر یہ دامن گیر تھی کہ ایک صحافی کو محض اس لیے برداشت نہ کیا گیا کہ وہ تنقید کرتا ہے اور ان کی پالیسیوں کو درست نہیں سمجھتا تو یہ ہلوگ حکومت میں سیاسی مخالفین کی نکتہ چینی کا سامنا کیسے کریں گے اور کتنے دن کریں گے؟
اگلے روز جب میر بزنجو صاحب نے بلاکر معذرت کی تو میں نے ان کے سامنے بھی ان اندیشوں کا اظہار کیا تو انہوں نے ٹھنڈا سانس لیا اور کوئی بات نہ کی۔ بات کرنے کا کوئی یارا بھی نہ تھا کہ سردار مینگل اور ان کے ساتھیوں کی عظیم قربانیاں صبر آزما کٹھنائیاں کہیں رائیگاں نہ چلی جائیں، ان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد کچھ ایسے شاطر لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے۔ جو ان کے کبھی شریک سفر نہ تھے نو آموز تھے نو وارد تھے اور دوسرے کیمپ کے مخبر بھی تھے۔
خلاف قلات کو سردار مینگل سے ایک خاص قسم کی انسیت تھی وہ سردار عطاء اللہ مینگل کی کامیابی کے آرزومند رہتے تھے اور جب مینگل صاحب کا کوئی طرز عمل انہیں پسند نہ آتا تو کبیدہ خاطر ہوجاتے ان کے بیان و اعلان کا وہ سنجیدہ نوٹس لیا کرتے تھے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل نے بلاشبہ قید و بند کے طویل اور صعوبت مراحل کو برداشت کیا۔ سن شعور یعنی سرداری سے لے کر ون یونٹ اسمبلی کی رکنیت اور انے نور چشم اسد مینگل کی سفاکانہ اور پر اسرار ہلاکت تک انہوں نے بہت سے صدمے سہے، بلوچستان میں امیر خداداد خان (معزول خان قلات) میر نور الدین مینگل، خان قلات امیر احمد یار خان، آغا عبد الکریم خان، نواب نوروز خان زہری اور ان کے جگر گوشے اور رفیق عبد الصمد خان اچکزئی، ملک عبد العلی کاکڑ، میر غوث بخش بزنجو، عبد الخالق خان، نواب خیر بخش مری، میر شیر محمد مری، میر گل خان نصیر، ملک فیض محمد یوسف زئی، میر گوہر خان زہری، میر عبد الواحد کرد، میر عبد الرحمان کرد، عبد الباقی بلوچ، محمد خان رئیسانی، آغاز عبد الظاہر احمد زئی وغیرہ جیسے نفوس معتبر نے صبر آزما قید و بند کی صعوبتیں اور ذہنی اذیتیں برداشت کیں، کچھ لوگ معذور و مفلوج بھی ہوگئے ان کے ساتھ ساتھ نوجوان ساتھیوں میں خیر جان بلوچ، آغا سلیمان، سفر خان زرک زئی، اسلم گچکی، صدیق بلوچ، عبد الحکیم لہڑی، لال بخش رند، حنیف بلوچ، لطیف بلوچ، اسلم کرد وغیرہ (کس کس کا نام لوں)بہت سے دل والوں نے تحریک مزاحمت اور مسلح احتجاج میں حصہ لیا۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل نے قیام لندن کے دوران مینگل قبیلے کی سرداری اپنے بڑے سردار منیر احمد مینگل مرحوم کو سونپ دی۔ وہ نہایت برد بار اور متوازن نوجوان تھا اور بہت کم عرصے میں اس نے مقبولیت اور ہر دلعزیزی حاصل کرلی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ عین شباب میں دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ چنانچہ مرحوم کے جانشین ابھی کم سن تھے اس لیے سردار عطاء اللہ مینگل کے دوسرے (ترتیب کے لحاظ سے تیسرے) صاحبزادے اختر مینگل قائم مقام سردار بن گئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل بہت ہی جرأت مند، نقد گفتار مدبر، معاملہ فہم اور پر کشش انسانی صفات کے مالک ہیں مگر بقول سابق گورنربلوچستان جنرل رحیم الدین خان کے ”کاش وہ دھیمے لہجے کے لچکدار سیاستدان ہوتے“ ان کے ایک بیان (بلکہ انٹرویو) کی چند سطور کو یہاں بطور نمونہ پیش کیا جارہا ہے کہ:
”ملک میں حقیقی سیاسی عمل کی بحالی میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ سیاسی عمل میں رخنہ اندازیوں اور رکاوٹوں نے ایک غیر سیاسی صورتحال کو پروان چڑھایا ہے جس نے اکاس بیل کی طرح پوری سوسائٹی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ملک پر مسلط آمرانہ اور نئی غیر سیاسی قوتوں کو سیاسی اقتدار پر مسلط کردیا جس کے بغیر غیر سیاسی طرز عمل نے معاشرے کو متاثر کرنا ہی تھا سیاسی عمل کا استحکام سیاسی جدوجہد کو نتیجہ ہوتا ہے جبکہ غیر سیاسی مگر مراعات یافتہ طبقات کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ وہ اقتدار میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ بالادست کی مرضی سے حصہ دار بن جاتے ہیں اور غیر سیاسی فضا کو پروان چڑھاتے ہیں۔
ماضی کے آمروں نے سیاسی اور جمہوری اداروں کے تشخص کو محض اس لیے پامال کیا کہ ان کے اپنے اقتدار کے ستون مضبوط ہوں اور اس ”کار بد“ میں انہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو ان کے اختیار میں تھا۔ جبکہ آج حالات بدل چکے ہیں ہمارے گرد و پیش میں ہونے والی تبدیلیاں نئے دور کی صورت گری کررہی ہیں۔ جمہوریت انسانی حقوق کی ضامن بن کر ابھری ہے۔ عوام کی شمولیت جمہوریت کا لازمی حصہ بن چکی ہے وہ جمہوریت جمہوریت نہیں ہے جس میں عوام کی شمولیت نہ ہو۔ لہٰذا جمہوریت کو با معنی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اختیارات کی عدم مرکزیت کی راہ اپنائی جائے کہ نیچے سے اوپر تک منتخب ادارے با اختیار ہوں، تمام اختیارات مرکز کے پاس نہ ہوں بلکہ وفاق کو تشکیل دینے والی اکائیاں بھی با اختیار ہوں جب تک یہ نہیں ہوگا ایک بے چینی اور عدم ایقان کی نہ ختم ہونے والی کیفیت برقرار رہے گی۔“
سردار عطاء اللہ مینگل کسی بھی حاصل میں جب برطانیہ سے وطن آتے، لوگ پذیرائی کرتے، ان کے گرد جمع ہوجاتے، اپنی محبتیں نچھاور کرتے، اُن کے گُن گاتے اور گل افشانی کرتے۔ بلاشبہ سردار عطاء اللہ خان مینگل آج بھی بہت سے لوگوں کے نہاں خانہ دل میں بستے ہیں۔