شہید صحافیوں کے لواحقین کو فوری طورپرسرکاری ملازمت اورمعاوضہ ادا کیا جائے، بی یو جے
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان کے صحافیوں، وکلاء، انسانی حقوق کے رہنماؤں نے شہداء صحافت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کے قتل کی جوڈیشل تحقیقات کروائی جائیں اور ان واقعات میں ملوث اصل ملزما ن کو گرفتار کرکے قرار واقع سزا دی جائے شہید صحافیوں کے لواحقین کو فوری طور پر سرکاری ملازمت اور معاوضہ ادا کیا جائے۔یہ بات بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر سلیم شاہد، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند، پی ایف یو جے کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار،بلوچستان بار کونسل کے راحب بلیدی ایڈوکیٹ، کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر رضاالرحمن، سینئر صحافیوں ایوب ترین، سید علی شاہ، شہید صحافیوں کے لواحقین شعیب رئیسانی، عبدالنبی، بالاچ،انسانی حقوق کے کارکن احد آغا نے اتوار کو بی یو جے کے زیر اہتمام یوم شہداء صحافت کی مناسبت سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ شہداء صحافت بلوچستان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مقررین نے کہا کہ صحافت ہر دور میں مشکل پیشہ رہا ہے لیکن بلوچستان میں روز اول سے صحافت مختلف وجوہات کی بناء پر خطرات کا شکار رہی ہے بلوچستان میں شورش کے باعث گزشتہ 20سالوں میں صحافیوں نے سب سے زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں اس دوران صوبے کے 43کے قریب صحافی مختلف واقعات میں شہید ہوئے لیکن بد قسمتی سے آج تک کسی ایک بھی صحافی کے حقیقی قاتلوں کو گرفتار کے انہیں قانون کے مطابق سزا نہیں ہوئی جس کی وجہ سے صحافی برداری شدید تشویش کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حال ہی میں ایک صحافی کو حب میں انکی گاڑی پر بم لگا کر دھماکے سے شہید کردیا گیا صحافیوں پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں مگر کبھی کوئی چیز شواہد کے ساتھ ثابت نہیں کی جاتی الزامات لگا نے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ صحافی شہید ہوئے ہیں اسکے باوجود صحافی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں آج بھی صوبے کے صحافی مختلف اقسام کے دباؤ سے گزر رہے ہیں بلوچستان میں ہر ایک گروپ پریشر گروپ ہے لیکن آج بھی مشکلات کے باوجود صوبے کے صحافی جانفشانی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔مقررین نے کہا کہ صحافیوں سے خبر ہر ادارے کو چاہیے ہے لیکن جب یہی صحافی شہید ہوجائیں تو ادارے انہیں اپنا ملازم تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں اداروں کے کیمرے تو انشورڈ ہیں لیکن صحافی آج بھی انشورڈ نہیں ہیں بلوچستان میں اس وقت بھی صحافیوں کے لئے حالات ساز گار نہیں ہیں اس کے باوجود لوگ یہاں صحافت کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہید اور انتقال کر جانے والے صحافیوں کے لئے کوئٹہ پریس کلب میں جلد ہی گیلری قائم کی جائیگی کوئٹہ پریس کلب نے ہمیشہ صوبے کے پروقار پریس کلب ہونے کا کردار ادا کیا ہے اور یہ کردار ہم آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں اگست کا مہینہ سانحات سے بھر ا پڑا ہے اس ماہ میں صحافی، وکلاء شہید اور سیاسی رہنماء انتقال کر گئے آج ملک کا ہر طبقہ انصاف کا متقاضی ہے ہمیں سچ کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے عالمی برداری بلوچستان کے لئے آگے آئے بصورت دیگر سیلاب کے بعد صوبے میں انسانی المیہ جنم لینے کو ہے۔ مقررین نے کہا کہ شہداء صحافت کا دن منانے کا مقصد انکے عہد کو دوبارہ تازہ کرنا ہے آج ہم شہداء کی قربانیوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اکھٹے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں کے لئے جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ شرو ع کیا گیا ہے ساتھ ہی شہید صحافیوں کے لئے صحافیوں کی ہاؤسنگ اسکیم میں حصہ بھی رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بی یو جے اور پریس کلب صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد انہیں محفوظ بنانے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ سیمینار کے شرکاء نے قرار دادیں منظور کیں کہ بلوچستان میں شہید صحافیوں کے قاتلو ں کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم، شہداء کے اصل قاتلو کو گرفتار کر کے قرار واقعہ سزادی جائے، شہداء کے لواحقین کو حکومتی سطح پر معاوضہ ادا کیا جائے، شہید عبدالرسول کے نام سے سبی میں منسوب کردہ سڑک کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، کوئٹہ میں میٹروپولیٹن کاریوریشن کے سامنے واقع چوک کو شہداء صحافت بلوچستان چوک کا نام دیا
جائے،شہید صحافی محمود اور شہزاد کی بیواؤں کو پی ڈی ایم اے میں مستقل کیا جائے ساتھ ہی ہر شہید صحافی کے خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے۔سیمینار میں شہداء صحافت کے درجات کی بلندی، صحافی نصیر کاکڑ کے والد، نسیم حمید یوسف زئی کے بھائی کی وفات پر فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔