موجودہ حکومت نے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اداروں میں اصلاحات لائیں گے،محمد رمضان اچکزئی سمیت دیگر کا خطاب
کوئٹہ آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان کے زیراہتمام ایک روزہ سیمینار بموضوع ” قومی اداروں کی نجکاری، مزدوروں کے قانونی حقوق کی پامالی،ملک کے آئین اور موجودہ حکومت کے منشور کی خلاف ورزی ہے ” خورشید لیبر ہال کیقباد روڈ ملتانی محلہ کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ سیمینار سے کنفیڈریشن کے مرکزی سینئر نائب صدر و صوبائی صدر محمد رمضان اچکزئی،انور الحق کاکڑایڈوکیٹ سپریم کورٹ،اعظم جان زرکون ایڈوکیٹ، بلوچستان لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری اطلاعات عابد بٹ،لائیو اسٹاک پیپلز لیبر یونین کے جنرل سیکریٹری ولی محمد کاکڑ،رہنما بلوچستان لیبر فیڈریشن حاجی عزیز اللہ،ہائیڈر یونین کے جوائنٹ سیکریٹری محمد یار علیزئی اور فنانس سیکریٹری ملک محمد آصف اعوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے منشور میں مزدوروں کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی اداروں کی نجکاری کی بجائے اداروں میں اصلاحات لائیں گے اور وفاقی وزیر پلاننگ اسد عمر نے اسٹیل مل کے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت نے نجکاری کی تو وہ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے لیکن آج حکومت نہ صرف اسٹیل مل، ریڈیو پاکستان، واپڈا کے پاور ہاؤسز و ڈسٹری بیوشن کمپنیوں، ریڈیو پاکستان اور پی آئی اے سے مزدوروں کو فارغ کرنے کے علاوہ دیگر قومی اداروں کی نجکاری آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ڈکٹیشن کے ذریعے عمل میں لارہی ہے۔موجودہ حکومت کا وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بنک کا گورنر آئی ایم ایف کے پے رول پے کام کر رہے ہیں جبکہ سابقہ گورنر عشر ت حسین نے تو پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ وہ تنخواہ ورلڈ بنک سے لے رہے ہیں اور مفت کے تباہی کے مشورے حکومت پاکستان کو دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج وزیر اعظم عمران خان کے تبدیلی والی حکومت بد انتظامی، مہنگائی، بے روزگاری، بے انصافی،صحت اور تعلیم کی پستی کے دلدل میں پھنستی جارہی ہے۔ آٹے، چینی، گیس، پٹرول اور خوراک کی دیگر اشیاء کی مہنگائی نے آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کو دی جانے والی زندہ رہنے کے حق کو متاثر کر دیا ہے۔جون 2020 میں مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے سے ملازم طبقہ مزید پریشانیوں میں دھنستا جارہا ہے۔ دنیا کی کئی حکومتوں سے سرکاری اور نجی اداروں کے شراکت یا مقابلے کے رجحان سے اشیاء کی قیمتیں کئی کئی دہائیوں تک مہنگی نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم نے چینی کے برآمد کے بعد 21 روپے چینی کی کمی جس میں 102 روپے سے چینی 81 روپے پر پہنچ کرکے ٹویٹ کیا اور عوام کو خوشخبری سنائی کہ چینی سستی ہو گئی اور مشیروں کو شاباش دے دی۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے وقت چینی 52 روپے، آٹے کی 100 کلو والی بوری 3000 روپے، ڈالر 110 روپے کے لگ بھگ تھا اور آج ان نرخوں سے کم پر عوام کا اعتماد موجودہ حکومت پر بحال کیاجاسکتا ہے اور ٹیم کو اس وقت شاباش دی جائے جب وہ منشور میں کئے گئے تمام وعدے پورے کرے۔ عوام انتظار میں ہے کہ انھیں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان کب بنا کر دیئے جائیں گے، انھیں سستا انصاف کب فراہم ہوگا، کب ایسا الیکشن کمیشن قائم کیا جائے گا جو آزادی کے ساتھ شفاف الیکشن کرواسکے جس پر تمام پارٹیوں کا اعتماد ہو اور کب ایسے ممکن بنایا جائے گا کہ پارٹیوں کی الیکشن بھی مزدوروں کے الیکشن کی طرح چیف الیکشن کمیشن کے ذریعے ہو اورپارٹیوں کے ادارے مضبوط اور وراثتی سیاست کا خاتمہ ہو۔آئی پی پیز میں 51 ارب روپے کے گھپلے، آٹے اور چینی کے 404 ارب روپے اور ایل این جی دیر سے منگوانے میں 122 ارب روپے لوٹنے والے مافیاز کا احتساب کرکے حکومت عوام کی نظروں میں سرخرو ہو جائے۔ موجودہ حکومت اوراپوزیشن کوکھلے نعروں کے ساتھ اپنی اپنی مفادات کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں، انھیں عوام اور مزدوروں کے مشکلات کے پیش نظر فیصلے کرکے عوام کو خوشحال بنانا چاہیے۔ مقررین نے کہا کہ عدالتوں میں انصاف کا فقدان ہے، عدالت عالیہ کے فیصلے میں 62 یونینز کی رجسٹریشن غیر قانونی طور پر حکومت بلوچستان نے منسوخ کی اور عدالت عالیہ بلوچستان نے حکومت بلوچستان سے کوئی باز پرس نہیں کی بلکہ اس وقت کے سابقہ چیف جسٹس صاحبہ بلوچستان ہائی کورٹ کو تنظیموں کی رجسٹریشن کی منسوخی کے بعد ان کے خاوند کو بلوچستان اسمبلی میں ملازمت ملی۔ مقررین نے واضح کیا کہ ملک میں انصاف کا فقدان ہے، امن و امان تباہ و برباد ہے، احتساب متنازعہ ہے، حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی صفر ہے، تو ضروری ہے کہ ایسے بڑے اداروں کی نجکاری ہو تاکہ نظام درست ہونے کے ساتھ بجٹ اخراجات بھی کم ہو سکے۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ عوام انگریز کے زمانے کے انصاف ان کی خدمات، ان کی تعمیرات کو یاد کر رہے ہیں۔ ان کے دور میں عوام کو آزادی سے بولنے کا حق نہیں تھا اور آج بھی عوام کی آواز حق کیلئے اٹھانے پر پابندی ہے جس کی تازہ مثال ڈی جے بٹ کے خلاف ایف آئی آر اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مقررین نے واضح کیا کہ ملک زیادہ دیر تک باہمی چپقلش اور تنازعات کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی بحران کو ختم کرکے معیشت پر توجہ دی جائے اور ملک کے تمام ادارے مل بیٹھ کر آئین اور قانون کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کے جائز مسائل کو حل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے بصور ت دیگر عوام مزید ایسے حالات کو برداشت نہیں کریں گے اور ملک میں ایساوقت آسکتا ہے کہ جب عوامی غیض و غضب سے کوئی بھی محفوظ نہ ہو۔اس لئے ضروری ہے کہ ہوش کے ناخن لئے جائیں اور لڑائی جھگڑے کی فضا ختم کرکے ملک کے عوام کی بد حالی کو خوشحالی میں بدلا جائے۔