شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنماء ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دیدیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں درج اراضی کیس میں شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کیلئے تین رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی سابق سیکرٹری قانون جسٹس ریٹائرڈ شکور پراچہ کریں گے۔کمیشن کے دیگر ارکان میں سابق آئی جی ڈاکٹر نعمان خان، سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر سیف اللہ چھٹہ بھی شامل ہیں۔کابینہ ڈویژن کا جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ تین رکنی کمیشن شیری مزاری کی گرفتاری سے متعلق تحقیقات اور الزامات کا جائزہ لے گا جبکہ 4 جولائی تک اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو بھیجے گا۔
دوسری جانب شیرین مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی جس میں عدالت نے قومی اسمبلی سے 7 جولائی تک رپورٹ طلب کرلی۔شیریں مزاری اور ایڈوکیٹ ایمان مزاری اپنے وکیل علی بخاری کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، وکیل علی بخاری نے کہا کہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ 4 جون کو انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تاہم کمیشن سے متعلق ابھی کچھ نہیں ہوا نا ہمیں بلایا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم کمیشن کو سپروائز نہیں کر سکتے ان کو اپنا کام کردیں، اگر آپ کا کوئی اعتراض مستقبل میں ہو تو دوبارہ درخواست دے سکتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے کوئی رپورٹ آئی ہے؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے جواب دیا کہ بھی کوئی رپورٹ مجھے نہیں دی گئی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ علی وزیر ممبر قومی اسمبلی ہیں لیکن وہ بھی جیل میں ہیں، عدالت کی حدود میں صحافیوں کو بھی اٹھایا گیا کیا ان کی آج تک تحقیقات ہوئیں؟ یہ حکومت میں تھے تو ممبران اسمبلی کو خوشی خوشی اندر کر دیتے تھے۔
واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزاری کے خلاف درج ہوئی ایف آئی آر میں موقف اپنایا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما کو ان کے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی تاہم انہوں نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو جعل سازی کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کیا۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا، شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی جعلی منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔