عزیربلوچ کے خلاف دھماکا خیز مواد کا مقدمہ،مدعی نے بیان ریکارڈ کروادیا
لاہور (ڈیلی گرین گوادر) عزیربلوچ کے خلاف دھماکا خیز مواد کے مقدمے میں مدعی نے بیان ریکارڈ کروادیا۔انسداد دہشت گردی عدالت میں لیاری گینگ وار کے اہم کردارعزیر بلوچ کے خلاف دھماکہ خیزمواد کے مقدمے میں مدعی مقدمہ رینجرز جہانزیب خان کے ڈی ایس آر نے عذیر بلوچ کے خلاف اہم بیان قلمبند کرادیا۔
رینجرز آفیسر جہانزیب خان نے بتایا کہ سال 2016 میں عزیربلوچ کی گرفتاری کے بعد 90 روزہ ریمانڈ حاصل کیا۔جہانزیب خان کا کہنا تھا کہ دورانِ تفتیش عزیربلوچ نے گارڈن میں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد دفن کرنے کا انکشاف کیا اور کہا کہ وہ جگہ کہ نشاندہی کرسکتا ہے۔ملزم کی نشاندہی پرگارڈن میں زیرزمین دفن ایل ایم جی، راکٹ اور لانچر سمیت گولیاں برآمد ہوئیں۔اس کارروائی میں زمین میں دفن دستی بم،اعوان گولے اورلانچربھی برآمد کئے اور تمام اسلحہ کو فارنسک کے لئے ضابطے کے مطابق بھیجا۔
جہانزیب خان نے بتایا کہ بارودی مواد کو بم ڈسپوزل اسکواڈ سے ناقابل استعمال کرکے پولیس کے حوالے کیا۔مدعی نے بتایا کہ سٹی کورٹ کے مال خانے میں لگنے والی آگ میں کیس پراپرٹی جل کر تباہ ہوگئی۔عزیربلوچ کے وکیل عابد زمان نے گواہ کے بیان پر جرح کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ایف آئی آراور پولیس کو دیئے بیان میں کہیں نہیں ہے کہ تمام گولہ بارود پولیس کے حوالے کیا۔جرح کرتےہوئے یہ بھی پوچھا گیا کہ اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کچرہ کنڈی سے برآمد کیا گیا توبم ڈسپوزل اسکواڈ کو موقع پر طلب کیوں نہیں کیا گیا؟ملزم کے وکیل عابد زمان نے گواہ کے بیان پر جرح مکمل کرلی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر مزید گواہان کو طلب کرلیا۔
لياری گينگ وار کے سرکردہ کردار عزیربلوچ نے اپنے اقبالی بيان ميں کہا تھا کہ سابق صدرآصف زرداری کے کہنے پر اپنے گروہ کے 15 سے 20 لڑکے بلاول ہاؤس بھیجےجنہوں نے بلاول ہاؤس کے اطراف 30 سے 40 بنگلے اور فلیٹ زبردستی خالی کرائے۔عذیربلوچ کے اقبالی بیان میں بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی رہنما اویس مظفر کو آصف زرداری کے ليے14 شوگر ملوں پر قبضے میں مدد کی۔ بلاول ہاؤس کے اطراف بنگلےاورفلیٹ زبردستی خالی کروانے کی آصف زرداری نے انتہائی کم قیمت ادا کی۔عذير بلوچ کے بيان ميں سابق صدرآصف زرداری،اویس مظفر،شرجیل میمن، قادر پٹیل اور پيپلزپارٹی کے ديگر رہنماؤں پرسنگين الزامات عائد کئے گئے۔
عذيربلوچ کے اقبالی بيان ميں يہ بھی ہے کہ وہ ایرانی خفیہ ایجنسی کے حاجی ناصر کے ساتھ ایران گیا اور ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کی اور کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دئیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا۔ملاقات میں اہم تنصیبات کے داخلی وخارجی راستوں کی نشاندہی کرائی گئی اورسیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمدورفت کا بھی بتایا گيا۔عدالت نے عزيربلوچ کے بیان کو رینجرز اہلکاروں کے قتل کیس کاحصہ بنالیا ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نےعذيربلوچ کےاقبالی بیان کی نقول اے ٹی سی میں جمع کروائی ہیں جس میں اس نے بیان دیا کہ سال 2003 میں لیاری گینگ وار میں شمولیت اختیار کی اور سال 2008 ميں جیل میں پیپلزپارٹی رہنما فیصل رضا عابدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ نصرت منگن کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے قیدیوں کا ذمہ داربنایا گیا۔عذيربلوچ نے بتایا کہ رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار کی کمان سنبھالی اور پیپلز امن کمیٹی کے نام سے مسلح دہشت گرد گروہ بنایا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بلوچستان سے اسلحہ منگواتے تھے جس کواغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری ،سیاسی جلسوں اور ہڑتالوں کو کامیاب بنانے ميں استعمال کيا جاتا تھا۔
اس کےعلاوہ لیاری میں ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ سے کہہ کر اپنی مرضی کے پولیس افسران تعينات کرانے کا بھی اعتراف کيا۔عذير بلوچ نے يہ بھی بتايا کہ پولیس کی مدد سے ارشد پپو، اس کے بھائی اور ساتھی کو اغوا کیا۔ تینوں کے سر تن سے جدا کرکے لیاری کی گلیوں میں فٹ بال کھیلا اور لاشوں کو جلا دیا۔اس واردات کی فوٹيج بنا کر وائرل کی تا کہ دہشت پھيلے۔استغاثہ نے عذير بلوچ کی بریت چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ۔ استغاثہ نے موقف دیا کہ ان مقدمات میں گواہوں کے بیانات پر توجہ نہیں دی گئی جبکہ عذیر بلوچ کو سزا دلوانے کیلئے شواہد موجود ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ مقدمات بحال کرنے اور گواہوں کو ازسرنو سننے کی استدعا کی جائے گی۔ان میں قتل ، اقدام قتل ، اغوا ، پولیس مقابلہ اور غیر قانونی اسلحہ کےمقدمات شامل ہیں۔
عزیر بلوچ کے خلاف بیشتر مقدمات میں 2012 سے 2013 تک ہونے والے جرائم شامل ہیں۔3 ماہ قبل عذیربلوچ کے مسلسل بری ہونے سے متعلق عدالت میں پراسیکیوٹر نے انکشافات کيا تھا کہ عذیر بلوچ کے کیسز سے متعلق گواہان و پراسیکیوشن کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سرکاری وکيل نے کہا کہ گواہان پراسیکیوشن اور عدالتی عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔عذیربلوچ کو رینجرز نے 30 جنوری 2016ء کو حراست میں لیا تھا۔ رینجرز نے اپریل 2017ء میں عزیر بلوچ کو جاسوسی اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر پاک فوج کے حوالے کر دیا تھا، کور 5 نے عذیر بلوچ کو 3 سال بعد 6 اپریل 2020ء کو پولیس کے سپرد کردیا تھا۔