پاکستان سمیت بلوچستان میں اعلی عدلیہ میں تقرریوں کے اندرآئین وقانون کوبالائے طاق رکھا جاتا رہا ہے، امان اللہ کنرانی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر(ر) امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت بلوچستان میں بھی اعلی عدلیہ میں تقرریوں کے اندر آئین و قانون و قاعدے کو بالائے طاق رکھا جاتا رہا ہے بالخصوص عدالت عظمی نے 2010 میں ایک فرمائشی آئینی درخواست کے زریعے آئین میں اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کرانے کی آڑ میں بندوق کی نوک پر آئین میں ججز تقرری کے لئے عدلیہ کی فیصلہ کن کردار کو یقینی بنانے کے لئے آئین میں 19 ویں کرادی جبکہ اس سے پہلے بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام پانچ ججوں کے استعفیٰ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کو اگست 2009 کو براہ راست چیف جسٹس نامزد کیا گیا انکی دیانت و صلاحیت و بے پناہ تجربے و صوبے کے قدیم باشندے ہونے کے ناطے و بانیان قیام پاکستان کی جدوجہد میں ان کے خاندان کے بے پناہ کردار کی بنا پر انکی براہ راست تقرری کو صوبے کے وکلاء و عوام نے خوش آمدید کہا اس کے بعد ہائی کورٹ میں ستمبر 2009 چار معزز صاحبان کی تقرری کی گئی جن میں ایک جونیئر سیشن جج کو ایک سینئر بلوچ جج پر ترجیح دی گئی بعدازاں 2010 میں بھی عمر رسیدہ وکیل سیشن کو ہائی کورٹ کا جج بناکر بلوچستان ہائی کورٹ میں بلوچ چیف جسٹس بننے کی راہ میں دانستہ رکاوٹ ڈالی گئی یہی تسلسل و شعوری پالیسی 2013 جج صاحبان کی تقرری میں بھی برقرار رہا جو بعد میں تسلسل کے ساتھ 2019 میں بھی جاری رہا اب تیسری مرتبہ ایک بار پھر بلوچ چیف جسٹس کے مستقبل میں امکانات کو رد و کرکے مجوزہ ہائی کورٹ کے ججوں کی تعیناتی یہی پالیسی دْہرائی جارہی ہے اس پر وکلاء کے تحفظات اپنی جگہ مگر میرا واضح دو ٹوک پیغام و مطالبہ ہے مجوزہ ججوں کی تعیناتی کسی تعلق سے بالاتر محض میرٹ کی بنیاد پر اس طرح کیا جائے کہ بلوچ وکلاء کے نوجوان طبقے کو نمائندگی دی جائے جو کم سے کم آئندہ دس سال کے طویل دور کے بعد 2030 میں مناسب وقت کے لئے اپنی سرزمین پر نمائندگی کا حق مل سکے ورنہ نئی مجوزہ تقرریوں کی صورت میں موجودہ نسل کی موجودگی یعنی آئندہ بیس 20 سالوں میں کوئی چیف جسٹس بلوچ سرزمین سے نہیں ہوگا