جان لگانے والے کارکنان کو ٹکٹ دینے کے مثبت نتائج حاصل ہوئے،حافظ حسین احمد
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سینئر رہنما اور ممتاز پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد نے بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کی صوبائی نظم کے تحت نامزد کردہ امیدواروں کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی جمعیت علماء اسلام پاکستان کے اصل دستور اساسی کے تحت جہاں جہاں صوبائی تنظیم نے نچلی سطح کی سفارشات بر جن، جن مخلص اور جان لگانے والے کارکنوں کو ٹکٹ دیا تو اس کے مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے۔ وہ منگل کواپنی رہائشگاہ جامعہ مطلع العلوم میں میڈیا سے گفتگوکررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے اصل دستور اساسی کے مطابق پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات کے پارٹی امیدواروں کی نامزدگی میں جہاں ”جا ن“ لگانے والوں کواہمیت دی گئی وہاں وہاں کامیابیاں بھی ملیں اور جہاں پارٹی سے وفاداری کے بجائے صرف ”مال“ کو مدنظر رکھا گیا وہاں ناکامی کے ساتھ پارٹی بھی انتشار کا شکار ہوئی کیونکہ صوبوں کی اکثر سفارشات کو نظرانداز کر کے مرکز نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے دستور اساسی کے اس امتیازی شان کو کافی حد تک متاثر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی صوبہ پختونخواہ میں دوبار اقتدار میں رہنے کے باوجود وہاں بلدیاتی انتخابات میں بلوچستان کی طرح کامیابی حاصل نہ کرسکی کیونکہ وہاں اکثرمقامات پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ٹکٹوں کی تقسیم میں ”جان“ لگانے والے کارکنوں کے بجائے صرف ”مال“ دینے والوں کو نوازا گیا اوراس طرح یہی پالیسی ہی ہمارے گلے پڑگئی۔ حافظ حسین احمد نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مولانا عبداللہ درخواستی ؒاورحضرت مولانا مفتی محمود ؒ کے دور کے اصل دستور اساسی کے تحت جمعیت علماء اسلام پاکستان کے نظم کو متحد و متفق ہوکر چلا یا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے بھی اصل دستور کی بحالی اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے انٹرا پارٹی کی دیانت دارانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے پارٹی کے اداروں میں ہی آواز بلند کی جسے برداشت نہیں کیاگیا اور یہ کہ جمعیت علماء اسلام کی مجلس عاملہ اور مجلس شوری کے طے شدہ پالیسی اور فیصلوں کو محض میاں نواز شریف کی خواہش اور خوشنودی کے لیے کئی بار نظر انداز کیا گیامثلاً 2018ء کے دھاندلی کی پیداوار اسی قومی اسمبلی کی حلف برداری کے بائیکاٹ، صدارتی اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا دوٹوک اور متفقہ فیصلہ کو پارٹی کے اداروں میں لائے بغیر صرف نوازشریف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور عملاً نواز شریف کو جمعیت علماء اسلام پاکستان کے فیصلوں میں ”ویٹو“ کا حق دیاگیا اور میں نے پارٹی میں اس پر بھرپور طور پر آواز بلند کی جسے برداشت نہیں کیا گیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گذشتہ تین سالوں میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات اور یوٹرن پر یوٹرن لینے والے سیاسی رہنماؤں کے قول و فعل کے تضاد نے تو ہمارے اس موقف کی بھر پور تائید کی ہے کہ سیاسی معاملات پارٹی کے اداروں میں طے شدہ ”اصولی“ موقف کی بجائے فرد واحد کے ”وصولی“ موقف کے تابع سرانجام پارہی ہیں۔