آرٹیکل 63 اے کسی سیاسی جماعت کو نہیں سسٹم کو بچاتا ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کسی سیاسی جماعت کو نہیں سسٹم کو بچاتا ہے، یہ کیس آئینی تشریح کا بڑا اہم مقدمہ ہے، کل صدارتی ریفرنس کی کارروائی مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل نے خود پیر کے روز دلائل میں معاونت کی بات کی تھی جبکہ مخدوم علی خان کو بھی آج دلائل دینے کیلئے پابند کیا تھا. لگتا ہے اس معاملے میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں. عدالت نے دیگر مقدمات قربان کر کے سماعت کیلئے مقرر کیا ہے. آرٹیکل 63 اے اہم ایشو ہے، اس کا فیصلہ دینا چاہتے ہیں۔ عدالت نے کہا مخدوم علی خان پیش نہیں ہوتے تو تحریری دلائل دے دیں۔ بی این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل میں کہا کہہ یہ ضروری نہیں ہر انحراف کسی فائدے کیلئے ہو، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہر رکن اپنی مرضی کرے گا تو جمہوریت کا فروغ کیسے ہوگا، آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہے. کیا دس پندرہ ارکان سارے سسٹم کو تبدیل یا ڈی ریل کرسکتے ہیں، انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دے دیں جس سے سسٹم بھی بچ جائے گا۔ ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا۔
وکیل مصطفی رمدے نے کہا ہر مرتبہ عدالت کے کندھے استعمال ہوتے ہیں، یہ کام پارلیمنٹ کا ہے وہ خود کیوں نہیں کرتے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں بلکہ آئین پاکستان ہیں۔ عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ دنیا کے دو سو ممالک میں سے 32 ملکوں میں انسداد انحراف قانون ہے مگر اس پر عمل 6 ملکوں نے کیا ہے. چیف جسٹس نے کہا بحث سے ایک بات سمجھے ہیں کہ پارٹی کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کر سکتا ہے، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔