سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت جاری

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر)مشترکہ اپوزیشن کی وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف جمع کروائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے بغیر ووٹنگ کے ہی مسترد کر دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں از خود نوٹس کیس کی آج پھر سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔گزشتہ سماعت میں اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے دلائل مکمل ہو گئے تھے۔پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل بابر اعوان، صدرِ مملکت عارف علوی کے وکیل علی ظفر، وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل کے دلائل ابھی باقی ہیں سماعت شروع ہوئی تو ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے ایک منٹ کے لیے سنا جائے۔

اجازت ملنے پر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آج اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیرِ سماعت ہے، 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کیے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی کا معاملہ آخر میں دیکھ لیں گے، آج کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ بھی اسلام آباد کے معاملے کی ایکسٹینشن ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں سب کو سن کر فیصلہ کرنا ہے، یک طرفہ کارروائی نہیں کر سکتے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھیں گے کہ کس قانون کے تحت اجلاس ملتوی کیا گیا۔پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے اقلیتی فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں، ایم کیو ایم، تحریکِ لبیک پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم اور جماعت اسلامی فریق نہیں، راہِ حق پارٹی کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے لیکن وہ عدالت کے سامنے فریق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ از خود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی، شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے از خود نوٹس لیا اور قوم کے ساتھ مہربانی کی، کیس یہ ہے کہ اسپیکر کا اقدام غیر قانونی ہے، آرٹیکل 5 کے حوالے سے کسی کو غدار کہا گیا، عدالت سے کہا گیا ہے کہ آئین کے 2 آرٹیکلز کی تشریح کی جائے، سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ ان کو آرٹیکل 5 کے تحت غدار قرار دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ غدار ان کو نہیں، آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے، آئین ایسی دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ن لیگ نے پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، مرکز، کے پی، پنجاب، آزاد کشمیر کی اکثریتی جماعت کو بغیر ریلیف چھوڑ دیا گیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی رولنگ پڑھے بغیر اپوزیشن لیڈر نے پریس کانفرنس کی، یہ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری طور پر ان کے حق میں مختصر حکم جاری کر دے، چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایات پر عدالت کے سامنے چند نکات رکھنا چاہتا ہوں۔

سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ارکانِ اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر نعیم بخاری دلائل دیں گے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ تمام شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ مخلص ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے، آئین شکنی پر کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے، آئینی طریقہ ہے جسے بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ کو یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔

بابر اعوان نے جواب دیا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا، پارلیمانی لیڈرز نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا، میٹنگ منٹس نعیم بخاری پیش کریں گے، میٹنگ میں کہا گیا کہ ایک ملک نے پاکستان کے معاملے میں مداخلت کی، احتجاجی مراسلہ جاری کیا جائے، پھر احتجاجی مراسلہ دو جگہ جاری ہوا، پاکستان میں اور خفیہ کوڈ والے ملک میں بھی، سینئر اینکر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کا وہی مؤقف ہے جو کمیٹی نے کہا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس میں دو رائےنہیں کہ آئین کے تحت ہر شہری کی وطن سے وفاداری لازم ہے، کوئی بیرونی طاقتوں سے ملا ہوا ہے تو اس کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر الزام ہے کہ وہ بیرونی سازش کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں، اگر ایسا ہے تو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے خلاف کیا کیا؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے کسی کو غدار کہا، نہ ایکشن لیا، محتاط ہو کر اس معاملے پر دلائل دے رہا ہوں، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن کو معاملہ بھجوایا ہے، رات کو میں نے اپنے مؤکل سے ہدایات لیں، پاکستان کی خود مختاری پر کس کس نے حملہ کیا؟ کمیشن بنایا جائے، میمو گیٹ کمیشن کی کارروائی ابھی تک زیرِ التواء ہے، جو حقائق متنازع ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں، کیا آ پ کے مؤکل کو نہیں پتہ کہ کون کون شامل ہے اور اتنا بڑا اقدام کر دیا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ صرف مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے بابر اعوان سے کہا کہ آپ کو ہمیں پارلیمانی جمہوریت کا بتانا تھا، ہمیں اس معاملے کو ختم کرنا ہے، ہم جلد سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، آپ اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کریں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے سوال کیا کہ ہمیں یہ بتا دیں آرٹیکل 69 اور 95 پر آپ کا کیا مؤقف ہے، آپ یہ بتا دیں کہ ڈپٹی اسپیکر کے کیا اختیارات ہیں؟بابر اعوان نے کہا کہ میمو گیٹ آج تک زیرِ التوا ہے، ایک شخص آج تک بھاگا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سب معلوم ہے، آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ کے کلائنٹ وزیرِاعظم کمیشن بنانا چاہتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مطلب انہیں معلوم نہیں کہ کون ملوث ہے؟بابر اعوان نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو جو کچھ علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آسٹریلیا، برطانیہ اور بھارت کے آئین کی تشریح میں نہیں جانا چاہتے، ہمارا اپنا آئین ہے، اس کی شقیں الگ ہیں، ان کی تشریح کے لیے بیٹھے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، وزیرِ اعظم تفتیش کار نہیں اس لیے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے، حقائق متنازع ہوں تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں متعلقہ حقائق بتائیں، باقی آپ کے تحریری دلائل پڑھ لیں گے۔بابر اعوان نے کہا کہ قومی مفاد سب سے بے چارہ لفظ ہے جو پاکستان میں بہت استعمال ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ قومی مفاد کا لفظ اسپیکر کے حلف میں کہاں استعمال ہوا ہے؟بابر اعوان نے جواب دیا کہ ملکی سلامتی اور دفاع سے وفاداری کا حلف میں ذکر ہے جو قومی مفاد ہی کہلاتا ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے دلائل پر جسٹس اعجازالاحسن نے سر تھام لیا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ قرار داد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ پہلا نکتہ ہے جو آپ نے دلیل میں اٹھایا ہے، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ رولز خود کہتے ہیں کہ ووٹنگ کے علاوہ بھی تحریک مسترد ہو سکتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسپیکر تب تحریک مسترد کر سکتا ہے جب اس نے لیو گرانٹ نہ کی ہو، ایک بار تحریکِ عدم اعتماد ایوان میں پیش ہو جائے تو اسے مسترد صرف ووٹنگ سے کیا جا سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر کی پاور اور ریگولیٹری اختیارات الگ الگ ہیں، رول 28 میں ڈپٹی اسپیکر شامل ہیں یا نہیں؟بابر اعوان نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر رول 28 میں شامل ہیں، نہیں میں جلدی میں ہاں کہہ گیا ہوں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ جواب میں ناں بھی کہہ سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جواب ہاں یا ناں میں دیں، ڈپٹی اسپیکر رول 28 میں آتے ہیں یا نہیں۔رول 28 کے سوال پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے نو کمنٹس کہہ دیا۔جسٹس منیب اختر نے ان سے استفسار کیا کہ اسپیکر کےخلاف تحریکِ عدم اعتماد زیرِ التواء ہو تو وہ سیشن پریزائڈ کر سکتا ہے؟

بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 94 کے تحت صدر وزیرِ اعظم کو نئی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں، کہاں لکھا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد واپس نہیں لی جا سکتی؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا؟ اگر کہیں لکھا نہیں ہوا تو اسے عدالت پڑھ بھی نہیں سکتی۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب چھانگا مانگا نہیں رہا، اب سندھ ہاؤس اور ہوٹل کی اپ ڈیٹ آ گئی ہے، جس ادارے کے اندر ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے وہ ملک کو قانون اور ضابطے دیتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ان سے سوال کیا کہ سیاست میں اصلاح کیا ہوتی ہے؟ آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ ہونا نتیجہ ہے، آپ کہتے ہیں کہ سنگین سزا ہونی چاہیے، اگر آپ کے ممبران منحرف ہو رہے ہیں تو سپریم کورٹ تو فیصلہ نہیں دے سکتی، سپریم کورٹ کو منحرف اراکین پر الیکشن کمیشن کی ڈکلیئریشن پر فیصلہ دینا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن کے لیے تیار ہیں، الیکشن کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا، بھارت اور بنگلا دیش نے ای وی ایم کا راستہ نکالا مگر ہم نہیں مانتے، اگر یہاں سے راستہ بننا ہے تو سعادت سمجھتا ہوں کہ اس تاریخ کا حصہ بنوں، ڈیڈ لاک روکنے کے لیے آپ نے از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی ماورائے آئین کام نہیں ہو گا، کوئی ریاستی ادارہ نہ آ جائے اس لیے از خود نوٹس لیا گیا، پارلیمنٹری کمیٹی کے لیے ہم نے اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور پرویز خٹک کے نام دے دیے، ہم نے قائم مقام وزیرِاعظم کے لیے نام دے دیا ہے، اپوزیشن تاخیر کر رہی ہے، ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، ڈیڈ لاک ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ کیس جلد مکمل کریں تاکہ تاخیر نہ ہو، عدالت عوام کے لیے فیصلہ کرے گی اور سب اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔اللّٰہ اس ملک پر راضی رہے، راستہ انتخابات ہے، بابر اعوان نے یہ کہتے ہوئے دلائل مکمل کر لیے۔بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ اِدھر ہونا چاہیے یا اُدھر، درمیان میں نہیں ہونا چاہیے، اگر اِدھر ہوا تو وہ کھڑے ہوں گے، اُدھر آیا تو ہم کھڑے ہوں گے، آپ کو پتہ ہے کہ اس طرح اسٹاک مارکیٹ کریش کرتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈیڈ لاک ہو جاتا ہے؟بابر اعوان نے جواب دیا کہ عدالت نے اسی ڈیڈ لاک کو روکنے کے لیے از خود نوٹس لیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، فیصلہ ایسا ہو گا جو ملک کے مفاد میں ہو گا، عدالت کے فیصلے کے سب پابند ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہو گا کہ ان کے ارکان انہیں کیوں چھوڑ جاتے ہیں، اس کا حل سیاسی جماعتوں ہی کے پاس ہے کہ وہ انہیں ادارہ بنائیں، ایسا کیوں ہے کہ وہی چہرے کبھی کہیں تو کبھی کہیں نظر آتے ہیں۔

صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی، عدلیہ پارلیمنٹ میں مداخلت نہیں کر سکتی، کی تو اس سے تصادم ہو گا، تصادم ہوا تو نقصان پاکستان کے عوام کا ہو گا، پارلیمنٹ سب جوڈس رول کے تحت عدلیہ کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی، ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان نے کہا ہے کہ عدالت آئینی خلاف ورزی پر پرکھ سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں ایسے عمل پر بھی عدالت نہیں دیکھ سکتی، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اداروں کے درمیان توازن ہونا چاہیے، توازن تبھی ہو گا جب ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں گے، اس کیس میں اسپیکر کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے