ماضی میں بلوچستان کو کوئی منصوبہ نہیں دیاگیا،جام کما ل خان
تربت:وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ وفاق اور بلوچستان حکومت مل کربلوچستان میں میگاپروجیکٹس بنائیں گے تاکہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لاکھڑاکرسکیں،بلوچستان کے لوگوں کے احساسات کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیاگیاہے تاہم بلوچستان کی ضروریات اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی،سی پیک کے تحت گزشتہ پانچ سالوں میں 50ارب ڈالر کے منصوبوں میں بلوچستان کو کوئی منصوبہ نہیں دیاگیا،اپنی ناکامی کوچھپانے کیلئے ہم پر سوال اٹھائے جارہے ہیں،ہم بھی بلوچستان میں بڑا جلسہ کرسکتے تھے تاہم بحیثیت ایک لیڈراور سربراہ ہمیں اپنے لوگوں کی زندگیاں عزیز ہیں نا کہ سیاسی مفادات۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز تربت میں جنوبی بلوچستان کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پروزیراعظم عمران خان،گورنر بلوچستان جسٹس(ر)امان اللہ یاسین زئی،وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان،وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار،وفاقی وزراء شبلی فراز،اسد عمر،اعجاز شاہ،زبیدہ جلال، مراد سعید،ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری،صوبائی وزراء سردارصالح بھوتانی،انجینئر زمرک خان اچکزئی،میر سلیم کھوسہ،میرضیاء اللہ لانگو،میرظہوراحمدبلیدی،نورمحمددمڑ،میرعارف محمد حسنی،بشریٰ رند،ملک نعیم خان بازئی،عبدالخالق ہزارہ،حاجی میٹھا خان کاکڑ،حاجی محمد خان لہڑی،میر عمرن خان جمالی،اراکین صوبائی اسمبلی لالا عبدالرشید، سید احسان شاہ،قادر علی نائل،ماہ جبیں شیران،چیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن (ر)فضیل اصغر،عامر محمود کیانی،وزیراعلیٰ کے کوارڈینیٹر میر عبدالرؤف رند،ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی،ضلعی آفیسران،اساتذہ،طلباء وطالبات کی بڑی تعداد موجود تھے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہاکہ بلوچستان کیلئے اعزاز ہے کہ یہاں آپ کو شاعر،بیوروکریٹ،ادیب سمیت ہر شعبے سے وابستہ لوگ ملیں گے،بلوچستان نے جب بھی سیاسی حوالوں سے چیزوں کو دیکھاہے تو ہر حوالے سے بلوچستان کے عام لوگوں کے احساسات کواستعمال کیاہے،تعلیم،صحت،روڈ،بجلی،روزگار یہ وہ چیزیں جو آج کے بلوچستانی کی ضرور ت ہے لیکن جن کو ہم نے لیڈر بنایا انہوں نے بلوچستان کی کمزوریوں اور ضروریات کو پورا نہیں کیا اور اگر پورا کرنے کی کوشش کی تو وہ پورا نہیں ہوسکے میں انہیں کچھ ذمہ دار ٹھہراتاہوں صوبائی مخلوط حکومت اور وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ ہم اس محرومیوں کوختم کرسکیں،بلوچستان میں کتنے منصوبے بنیں،سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان کو کیا ملا،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی سیاست میں سی پیک کی بہت بات کی جاتی ہے،سی پیک 2013ء سے 2018ء کے درمیان آیا اس دوران 50ارب ڈالر کے منصوبے آئے کیا اس رقم سے بلوچستان میں کوئی روڈ،گرڈ اسٹیشن،روڈ بنی یا بلوچستان کو تعلیم،صحت اور لوگوں کو روزگار کی سہولت دی گئی ہے،پنجاب میں سی پیک کے تحت اربوں روپے کے منصوبے بنیں،میں نے وزیراعظم عمران خان سے بات کی کہ اگر اس وقت بلوچستان میں کچھ رقم خرچ کرتے تو آج حالات بہتر ہوتے،آج بڑے جلسوں میں لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں سی پیک کے حوالے سے ہم نے کیا کیا،لوگ یہ بات بول گئے کہ سی پیک کے دو فیز تھے پہلا تعمیر جبکہ دوسرا بزنس فیز ہیں پہلا فیز چلا گیا اس لئے یہ سوال ہم پر نہیں اٹھتا،انہوں نے کہاکہ سی پیک اس حوالے سے ہمارے ہاتھ سے چلا گیا کہ اس فیز میں بلوچستان کو کچھ نہ مل سکاتاہم وفاقی وصوبائی حکومت مل کر اپنے وسائل سے یہاں منصوبوں کاآغاز کرینگے تاکہ اس کمی کو پورا کیاجاسکے،گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی کام نہیں دیکھا،وزیراعلیٰ پنجاب کے شکر گزار ہیں جنہوں نے تربت کیلئے 75کروڑ روپے کااعلان کیاہے بلکہ انہوں نے تفتان اور چاغی کیلئے بھی ایک پروجیکٹ کااعلان کیاہے،خوشی کی بات ہے کہ بلوچ وزیراعلیٰ پنجاب سے یہاں موجود ہیں جنہیں ایک مرتبہ پھر خوش آمدید کہتے ہیں،اس بات کااعادہ کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے جس بڑے پن کامظاہرہ کیاہے ہم اپنی غریبی میں پنجاب کیلئے کچھ کرسکیں گے،انہوں نے کہاکہ ہم سوچ رہے تھے کہ یہاں ایک بڑا جلسہ کریں لیکن ہم نے مشورہ کیاکہ اپنی ذمہ داری ایک لیڈر اور سربراہ کی حیثیت سے ادا کرینگے کہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔