جرگوں اور مشاورتی مجلسوں کا انعقاد اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہماری روایت بھی ہے، مولانا محمد خان شیرانی

کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی رہنماء مولانا محمد خان شیرانی نے کہاہے کہ کردار تبدیل کئے بغیر کردار کے نتائج اور انجام تبدیل کرنے کی کوشش اس کائنات کیلئے خدا کے قائم کردہ قانون کے خلاف ہے قوم کو اندھیرے میں رکھنا اور انہیں ورغلانا قوم کے ساتھ جرم ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشتونخوا میپ کے زیراہتمام بنوں میں منعقد ہونے والے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ جرگوں اور مشاورتی مجلسوں کا انعقاد اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور ہماری روایت بھی ہے اس لئے اس قسم کے جرگوں کا اہتمام لائق تحسین عمل ہے مگر مشاورت اور جرگے صرف اس صورت میں بارآور ہوسکتے ہیں جب اس میں گلوں شکوؤں ماضی کے شاندار تاریخی واقعات اور کسی کے در پر فریادی بن کر دستک دینے کے بجائے مشکلات اور بدبختیوں کے ٹھوس اور حقیقی اسباب اور پھر ان مسائل کے حل کیلئے حقیقت پسندی اور تلخ زمینی حقائق کا اعتراف کیا جائے انہوں نے کہا کہ اقوام اور افراد کی عروج و زوال اور خوش بختی و بدبختی ان کے کردار سے تعلق رکھتاہے اگر ہمارا قومی اجتماعی کردار ہمارے زوال اور مصیبتوں کا باعث بناہے تو ہمیں اپنے کردار ہی کو تبدیل کرنا ہوگا اپنے کردار کے نتائج کیلئے کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھرانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے انہوں نے کہا کہ ہمیں قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے کہ آج کی دنیا میں پاکستان جیسے ممالک کی حیثیت خودمختار ریاستوں کا نہیں بلکہ بین الاقوامی نظام میں محض بلدیاتی اداروں جیسی ہیں جو نہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر سے ہٹ کر قانون سازی کرسکتے ہیں نہ اپنے ملک میں موجود وسائل استعمال کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے نفع نقصان کی اساس پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتے ہیں ہمارے خطوں کی ملکیت اور حاکمیت انگریز کے پاس ہے اور یہاں کے تمام ادارے محض نگران اور چوکیدار کا فرض نبھارہے ہیں انہوں نے کہا کہ سیکورٹی سٹیٹس کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہی رعایا کو کرپٹ مجرم اور قاتل بناتی ہیں لہذا اس قسم کی ریاستوں کو بااختیار اور خودمختار بناکر عوام میں پیش کرنا اور پھر ان بے اختیار ریاستوں سے گلے شکوے اور احتجاج کرنا قوم کو ورغلانے اور اندھیرے میں رکھنے کا عمل ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مروجہ سیاست ابتدا میں منافقت درمیان میں عداوت اور آخر میں تجارت کے تین عناصر کا ملغوبہ ہے جس ملک میں ایک چیف منسٹر منصب پر باقی رہنے کیلئے چالیس کروڑ روپے پیش کرتاہو جبکہ دوسرا شخص اس منصب کو حاصل کرنے اربوں روپے خرچ کرتاہو اور جس ملک میں ارکان قومی اسمبلی کے ووٹوں کی بولیاں لگتی ہو اور منتخب نمائندوں کی ٹانگیں ایک ٹیلیفون کال پر لرز جاتی ہو اس ملک میں سیاست اور جمہوریت سے عوام کی خدمت کے توقعات نہیں باندھنے چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے