اشرافیہ کی وجہ سے زبانیں منہدم ہوتے جارہے ہے، محمد عامر رانا
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)پریس کلب کوئٹہ میں مادری زبانوں کے دن کے توسط سے بلوچی لبزانکی دیوان کے زیر اہتمام ایک سیمینار منعقد ہوا۔ جس کی مہمان خاص سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھے۔ جبکہ پروگرام کی صدارت روزنامہ ڈان کے کالم نگار محمد عامر رانا تھے۔ اس پروگرام میں بلوچی، براہوی، پشتو، ہزارگی زبا ن کے ادیب اور دانشوروں نے شرکت کی۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہر صورت میں اپنے مادری زبانوں کو زندہ رکھنا ہے۔ کیونکہ زبان واحد چیز ہے۔ جس کی بدولت انسان کو ایک دوسرے سے قربت مل جاتی ہے۔ قومیں بھوک افلاس قحط سالی آفات سے تباہ نہیں ہوتے۔ جب قومیں اپنی زبان ثقافت اور رسم ورواج کو چھوڑ دیتی ہے تو وہ تباہ ہو جاتے ہے۔ اور تاریخ میں اس کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوتا۔
بلوچستان میں وزیراعلیٰ بننے کے لیے ہر ایک اپنے کو بلوچ کہتے ہے۔ لیکن جب سیٹ پر پہنچ جاتے ہے تو وہ اپنی زبان کو ترجیح نہیں دیتے۔
روزنامہ ڈان کے کالم نگار محمد عامر رانا نے کہا کہ اشرافیہ کی وجہ سے زبانیں منہدم ہوتے جارہے ہے۔ کیونکہ ملک میں جو اہمیت انگلش زبان کی ہے وہ اُردو کی نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہے کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ مادری زبانوں پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ کیونکہ سائنسی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے۔ کہ بچہ دوسرے زبان کی نسبت اپنی مادری زبان میں زیادہ سیکھ سکتا ہے۔ نامور ناول نگار آغا گل نے کہا کہ تھامس ہارڈی خود اپنے ناول سناتے تھے۔ آج عامر رانا نے اپنے ناول کے کچھ حصے سنا کر تھامس ہارڈی کی یاد تازہ کر دی۔
نامور شاعر اور ادیب علی بابا نے کہا کہ عامر رانا صاحب کا ناول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ صفدر حسین اور علی ترابی نے بھی خطاب کیا اور مادری زبانوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ بلوچی لبزانکی دیوان کے چیئرمین یار جان بادینی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ آخر میں محمد عامر رانا کی ناول میر جان اور یار جان بادینی کی کتاب ماتی زبانان ارزشت کی تقریب رونمائی کی گئی۔