اگر کوئی پاکستان کا دوست ہے تو وہ افغان طالبان ہیں، مولانا فضل الرحمٰن
چمن(ڈیلی گرین گوادر)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ میں بحیثیت سیاستدان اپنے تجربے کی بنیاد پر دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی تنظیم پاکستان کی دوست ہے تو وہ امارت اسلامیہ افغان طالبان ہے۔
چمن میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوں، برطانیہ ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا جھگڑا چھوڑ کر گیا تاکہ لڑائیاں ہوتی رہیں، برطانیہ عرب دنیا سے نکلا تو جاتے جاتے اسرائیل کا ناسور چھوڑ دیا۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح امریکا، افغانستان سے نکلا تو ڈیورنڈ لائن کا تنازع چھوڑ گیا تاکہ کسی طریقے سے یہ دو دوست، دوست نہ رہیں، سرحدوں پر ہر ملک کا اپنا مؤقف ہوسکتا ہے لیکن سرحدوں کے تنازع پر جنگیں نہیں لڑی جاتیں اور یہ دور جنگوں کا ہے بھی نہیں، اگر ہم یہ جنگ لڑیں گے تو امریکا کی سازش کامیاب ہوگی، میں پاکستان اور افغانستان دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ ہمیں اپنے قدم اس جانب جانے سے روکنے ہوں گے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ آج قومی سلامتی پالیسی بنائی جارہی ہے تو پہلے تو یہ بتائیں کہ 74 سال تک پاکستان کی کوئی سلامتی پالیسی تھی اور اگر نہیں تھی تو جواب دیا جائے کہ کیوں نہیں بنائی گئی، آج جب قومی سلامتی پالیسی بنائی جارہی ہے تو جب تک ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہے تو سوال ہی پیدا نہیں کہ آپ سلامتی کی پالیسی بنائیں، پہلے آپ کو اس ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ آج کے حکمرانوں نے پاکستان کو دیوالیہ کردیا ہے، معاشی لحاظ سے ملک کو کنگال کردیا گیا ہے، آج پاکستان میں پیسہ نہیں ہے، پارلیمنٹ میں اس وقت جو قانون سازیاں ہورہی ہیں ان میں پاکستان کو مالیاتی اعتبار سے عالمی قوتوں کا غلام بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان میں اگر قانون سازی ہوئی تو ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کے مطابق ہوتی ہے، اگر آج منی بجٹ پاس ہوا تو آئی ایم ایف کے دباؤ پر منظور ہوا، ہم نے اپنے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری کے نام پر ملک کے کنٹرول سے باہر کیا اور آج وہ براہِ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہوگا جہاں آپ کا اپنا بینک بھی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ یہی غلطی خلافت عثمانیہ نے کی تھی کہ انہوں نے اپنے مرکزی بینک کو عالمی اداروں سے وابستہ کیا، پھر جب عثمانی خلافت پر مشکلات آئیں تو ان کے اپنے بینک نے انہیں قرضہ دینے سے انکار کردیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے حوالے سے قانون تو ابھی منظور ہوا لیکن جولائی 2019 سے اسٹیٹ بینک نے پاکستان کی موجودہ حکومت کو ایک روپے کا قرض بھی نہیں دیا، پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں 100 فیصد ڈالرز قرض کے رکھے ہوئے ہیں ہماری اپنی اقتصادی ترقی، اپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی ہمارے بینکوں میں موجود نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت تباہ ہوجاتے ہیں جب اس کی معیشت تباہ ہو، آج جو ہم ان حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، بخدا ہم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کشمیریوں کو بھارت کے ظلم کے حوالے کردیا ہے کیوں کہ ہمارے بس میں نہیں، عام آدمی تو کہتا ہے میرے پاس بجلی، گیس کے بل ادا کرنے، بچوں کی فیس نہیں دے سکتا، بازار سے راشن نہیں خرید سکتا لیکن خبر آئی ہے کہ فوج نے بھی درخواست کردی ہے کہ ہمارے بجلی کے بلز 50 فیصد معاف کردیے جائیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر ہماری سپاہ کا بھی یہ حال ہوجائے تو بتائیں کہ کیا بنے گا، ان حالات میں بھی پاکستان کا مذہبی طبقہ، پاکستان کے مدارس، علما اس ملک کے ساتھ وفادار اور ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں مہنگائی ہے، ملک کنگال ہے، انہوں نے نوجوانوں کو کہا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ایک کروڑ نوکریاں دے گی لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ان 74 برسوں میں چھوٹے عہدے سے بڑے عہدے تک ملازمتوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی۔انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی نہیں ہے، خارجہ پالیسی اس وقت بنتی ہے کہ جب آپ کی معیشت مضبوط ہو، لوگ آپ سے کاروبار کرنا چاہیں، دنیا کے مفادات آپ سے وابستہ ہوں، ایک کنگال ملک کے ساتھ کون بے وقوف ہوگا جو تجارت اور کاروبار کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کون بے وقوف ہوگا جو اس نالائق حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے ہوتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کرے گا اور جب چین نے سرمایہ کاری کی تو ان حکمرانوں کو ملک کے حوالے کردیا گیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ نااہل لوگ ہیں، دھاندلی کے ذریعے ملک ان کے حوالے کیا گیا، یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں اور اسی لیے دنیا ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی کہ وہ بھی انہیں پاکستانی عوام کا نمائندہ نہیں سمجھتی۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، معاہدے ہوئے، سی پیک کے نام سے عظیم الشان تجارتی شاہراہ کی تعمیر شروع ہوئی، بجلی کی پیداوار بڑھی لیکن عوام کو وہ بجلی مہیا نہیں کی جاسکی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سی پیک منصوبہ روک دیا گیا ہے، چین پاکستان کا دیرینہ دوست تھا جس کی مثالیں دی جاتی تھیں، لیکن آج جب ہم نے دیکھا کہ دوستی معاشی دوستی میں تبدیل ہو رہی ہے تو 70 سالہ دوستی کو لات مار کر بااعتبار دوست کی دوستی کو ٹھیس پہنچائی، اس طرح ملک نہیں چلا کرتے۔