70 فیصد گیس کی ضروریات بلوچستان پورا کررہا تھا اب 20 فیصد ہوگیا ہے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

کراچی(ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کراچی پریس کلب میں نو منتخب صدر فاضل جمیلی اور دیگر عہداروں کو مبارک دی اور پھول پیش کئے اس موقع پر نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی اور مرکزی رہنما واجہ ابوالحسن بھی موجود تھے کراچی پریس کلب پہنچنے پر نامور صحافی سعید سربازی، عارف بلوچ، اکرم بلوچ، حفیظ بلوچ اور دیگر صحافیوں نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا استقبال کیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے گیس کے ذخائر اب بہت کم ہوکر رہ گے ہیں جس سے بلوچستان کی آمدنی بھی کم ہوگی ہے ایک وقت تھا پاکستان کی 70 فیصد گیس کی ضروریات بلوچستان پورا کررہا تھا اب 20 فیصد ہوگیا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی امیدیں اب ریکودیک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ سے وابستہ ہیں لیکن حالیہ سرکار سے خیر کی امید رکھنا اپنے عوام کو دھوکہ دینے کے برابر ہے انھوں نے واضع کردیا کہ ریکودیک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ پر ہونے والے فیصلے کو کوئی بلوچ ماننے کو تیار نہیں ہے بندوق کے زور پر زبردستی بلوچستان کے عوام پر کوئی فیصلہ مصلحت نہیں کیا جاسکتا ہے ریکودیک پر ہماری پارٹی اور بلوچستان کے عوام کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہیں اس حقیقت کو پاکستان کے حکمران اور طاقتور ادارے جتنا جلدی تسلیم کریں یہ اس ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔انھوں نے صحافیوں کے ایک سوال پر کہا کہ بلوچستان میں عوام کے حق ووٹ کو جس طرح 2018 میں پامال کیا گیا اگر آئندہ ایسی سلسلے کو دورانے کی کوشش کی گئی تو اس کے انتہائی بیانک نتائج سامنے آہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی سیاست نہیں ہورہی ہے پہلے اقدار کی سیاست ہمارے اکابرین کرتے تھے اس وقت بلوچستان میں صرف اقتدار کی سیاست ہورہی ہے اس لیے عوام کو ان سے کوئی امید بھی نہیں رہی۔ انھوں نے ایک سوال پر کہاکہ مجھے وزیر اعلی وزیراعظم نواز شریف اور محمود خان اچکزئی نے بنایا میری وزارت اعلی میں کسی اور کا کوئی کردار نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ادارے سیاست جتنا دور رہیں گے اتنا ہی ملک و جمہوریت اور ہم سب کے مفاد میں ہوگا۔ پارلیمانی سیاست میں جو بھی ڈیل کرکے آئے گا ذلیل و خوار ہوگا انھوں نے ایک سوال پر کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک کے اپنے تمام ہمسایوں سے کشیدہ تعلقات ہیں جو مثبت بات نہیں ہے افغانستان کے حوالے سے انھوں نیکہا کہ افغانستان میں ہم کوئی مداخلت نہ کریں جو نظام وہ لاتے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن شاہد ویسٹ سے اپنی ناکامی ہضم نہیں ہورہی ہے اور وہ افغانستان کو قبول کرنے کو تیار بھی نہیں ہیں۔ انھوں نیکہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کے نام پر چیک پوسٹوں پر لوگوں کی تذلیل کی جارہی ہے جو ناقابل برداشت ہے اور کراچی میں بلوچستان کی گاڑیوں کو ہر چورائے پر روک کر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے اس پر حکومت سندھ کو نوٹس لینا ہوگا اور بائی روڈ کراچی میں داخل ہونے والوں کو پولیس روک کر ان کو لوٹتا ہے اور تنگ کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے