پی ڈی ایم کے جماعتیں احتجاج،جلسے جلوس پرمتفق تاہم استعفے آخری مرحلہ ہوگا،سردار اختر مینگل

کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ ملک میں حکومتیں گرائی بھی جاتی ہیں اور بنائی بھی جاتی ہیں لیکن پاکستان جمہوری تحریک کامقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ حکومتی نااہلیوں کو عوام کے سامنے لاناہے،عدم اعتماد غیرقانونی وغیرآئینی نہیں تاہم اگر ہارس ٹریڈنگ نہ ہو،بدقسمتی سے ہارس ٹریڈنگ ایک جراثیم جو کورونا وائرس کی طرح سینیٹ تک پھیل گئی ہے،ملک میں کوئی حکومت نہیں جس پر دھاندلی کاالزام نہ لگا ہو،بی این پی کے6نکات پیپلزپارٹی کے سامنے رکھیں لیکن انہوں نے بے بسی کااظہار کیا،لگتاہے کہ ملک کے ایوانوں اور وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں اور ماحول ایسا ہے جہاں لوگ ماضی کو بھول جائیں عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد بدل گئے،ہم نے بلوچستان میں 70سالہ نفرت،مایوسی اور بدامنی کے خاتمے کیلئے وفاقی حکومت کو ایک راستہ دکھایا تھالیکن عملی کام نہیں ہوسکا،عوام عملی کام پر یقین رکھتی ہے فلاسفی یا افلاطون کے تھیوریز پر نہیں،اداروں کی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے ملک میں انارکی پیدا ہوگی،پاکستان جمہوری تحریک میں شامل جماعتیں احتجاج،جلسے جلوس پرمتفق تاہم استعفے آخری مرحلہ ہوگا۔سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ نہ ہم نے حکومت گرانے کی کوشش کی اور نہ ہی بچانے کی کوشش کی ہمارے سنجیدہ مسائل جس کیلئے بحیثیت بلوچستانی میں ہم نے کوشش کی،انہوں نے کہاکہ یہاں پر کوئی حکومت نہیں گراتا تاہم حکومت گرائی جاتی ہے لیکن کاش یہ اختیارپارلیمنٹرین کے پاس ہوتاتو یہاں حکومتیں ان کی مرضی سے بنتی اور گرتی بھی ان کی مرضی سے لیکن ہم سب کو پتہ ہے کہ یہاں حکومتیں بنائی بھی جاتی اور گرائی بھی جاتی ہے،پی ڈی ایم کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ اس حکومت کی نااہلیوں کو عوام کے سامنے لاناہے،سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل پر خاموش نہ رہے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کودرپیش مسائل ومصبیتوں پر آواز بلند کریں اور ان کو عوام کے سامنے رکھیں تاکہ آگے عوام فیصلہ کریں کہ انہوں نے کیا کرناہے،انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد کوئی غیرقانونی وغیرآئینی کام نہیں بلکہ یہ آئین اور اسمبلی رولز کا حصہ ہے کسی کو اس سے نہیں روکاجاسکتا، ہم اس عدم اعتماد کے حق میں نہیں جس میں ہارس ٹریڈنگ ہوں اس کو میں جمہوری نہیں کہتا،پارلیمنٹ کے حصہ لینے والے لوگوں سے اعتماد کا ووٹ لیاجاتاہے،بدقسمتی سے اس وقت اپوزیشن ایک پیج پر نہیں اگر اپوزیشن ایک پیج پر ہوتی تو حکمرانوں کو حکومت بنانا مشکل ہوجاتا، موجودہ حکومت سے پہلے بھی ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور موجودہ حکومت میں بھی ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے،سینیٹ میں حکومت اقلیت میں تھی لیکن یہ ووٹ کہاں سے آئیں،ہمیں بنیاد کو دیکھنا ہوگااسمبلیوں میں دھاندلی،نتائج کو تبدیل اور فارم 45امیدواروں کو دینے سے انکار کیا گیااس طرح تو سب غیر آئینی ہے،دھاندلی صرف اپوزیشن کے ساتھ نہیں بلکہ سب کے ساتھ ہوئی ہے،1970ء کے بعد ایک منتخب حکومت کے بعد ایک جراثیم پھیلی ہوئی ہے،ہمیں دھاندلیوں کے مانیٹرز کے حوالے کیاگیا یہ کورونا وائرس کی طرح آج سینیٹ تک پہنچ چکی ہے،انہوں نے کہاکہ کوئی ایک حکومت کا بتایاجائے کہ جس پر دھاندلی کاالزام نہیں لگا ہوں،اگر بھٹو کے وقت میں الیکشن کے نتائج کوتسلیم کیاجاتا تو آج حالات مختلف ہوتے،سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ ووٹر جب اپنا ووٹ ڈالتاہے تو صرف اس اور اس کے ضمیر کوپتہ ہے،2018ء میں ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا اور گنتی کرنے والے وہ تھے جنہوں نے نتائج کااعلان کیا ان پر کون یقین کرسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں حکومت سے قبل میں نے اپنے مطالبات پیپلزپارٹی کے سامنے رکھیں جنہوں نے کہاکہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں،پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے رابطہ کیا ہم نے 6نکات لاپتہ افراد، بلوچستان کی ترقی،ڈیمز،وسائل کی تقسیم،افغان مہاجرین کے مسائل ان کے سامنے رکھیں جو بڑے مشہور بھی ہوئے لیکن اس کی وجہ سے ہمیں بدنام بھی کیا گیا،ہم انتظار کرتے رہے،ان نکات میں لاپتہ افراد میں پیشرفت ہوئی لیکن وہ پھر رک گئی،ہم بارہا یاد دہانی کراتے رہے،الیکشن میں ہم نے عوام سے بنیادی مطالبہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ووٹ مانگے،وزیراعظم سے تین بار ملاقات ہوئی،انہوں نے کہاکہ عمران خان کو وہ عمران خان سمجھتے تھے جو مجھ سے زیادہ صوبوں کے اختیارات اور لاپتہ افراد کے حوالے سے سرگرم تھے لیکن شاید ہمارے ایوانوں اور وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں یا ماحول ایسا ہے کہ آدمی ماضی کو بھول جائیں وہ ٹوٹل بدل گئے۔انہوں نے کہاکہ وہ مائیں بہنیں جو بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہے ان کے سامنے میرے ایک گھنٹے کی پیاس کوئی معنی نہیں رکھتی،ہمارے ہاں روایت ہے کہ جس گھر میں جاؤ اور وہاں پانی کا نہ پوچھاجائے تو ان سے امید نہ رکھیں،انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں 70سالہ نفرت،مایوسی اور بدامنی کے خاتمے کیلئے وفاقی حکومت کو ایک راستہ دکھایا تھا،انہوں نے کہاکہ لوگ فلاسفی یا افلاطون کے تھیوریز پر یقین نہیں وہ دریافت کرتے ہیں کہ سردی گرمی برداشت کے بعد ہمیں کیا ملا مہنگائی ختم ہوئی،امن وامان قائم ہوا،پارلیمنٹ کی بالادستی کوقائم رکھنے کیلئے کچھ کیا گیا،یہاں اگر کام ہوئے تو وہ عوام کیلئے نہیں تھے۔انہوں نے کہاکہ آج یہ ملک جس مقام پر کھڑاہے یہ ایک خطرناک مقام جہاں نہ آگے جانے کاراستہ نہ پیچھے جانے کا راستہ ہے،انہوں نے کہاکہ اگر ہر ادارے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلے گا تودوسرا اس کو برداشت نہیں کرے گاچاہے وہ پارلیمنٹ کیوں نہ ہو،پارلیمنٹ ہو یا کوئی اور ادارہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے ملک انارکی کی طرف جائے گی،سندھ کا واقعہ سب کے سامنے ہے اگر ایک آئی جی غائب ہوتاہے تو غریب بلوچ کی کیا حالت ہے،یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے،اللہ کرے کہ یہ انکوائری پچھلے انکوائریز کی طرح نہ ہوں بلکہ ایک ٹھوس شواہد برآمد ہوں،انہوں نے کہاکہ جب سیاسی لوگ یا حکومتیں اداروں کو سامنے لاکر یا ادارے خود ان کی شیلڈ بنیں گے تو چھینٹے پڑیں گی،ہم 70سالوں سے یہ باتیں کررہے ہیں نوازشریف کو آج یہ بات یاد آئی ہیں،انہوں نے کہاکہ غداری کے مقدمات پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہم کب سے اس چکی میں پستے چلے آرہے ہیں اس آگ میں جل جل کرکندن ہوگئے ہیں اگر اتنی بڑی قیادت غدار تو انہیں منتخب کرنے اور انہیں چاہنے والے بھی تو غدار ہیں،ملک کی 50فیصد نہیں تو 45فیصد لوگ غدار ہوں گے جو اپوزیشن کے ساتھ ہیں،یہاں صرف غداری کے الزامات نہیں بلکہ انہیں غیرملکی ایجنٹ بھی ڈکلیئرکئے جارہے ہیں،یہ اپنی آبادی کم کرکے دشمنوں کی آبادی بڑھانے کے مترادف ہے،انہوں نے کہاکہ جس کشمیر کوآزاد کہاجارہاہے اس بات سے اندازہ لگایاجائے کہ اس کے وزیراعظم کو بھی غدار کہاجارہاہے،انہوں نے کہاکہ ہم آگے کی بجائے پیچھے جارہے ہیں،آج افغانستان اور بنگلہ دیش کی جی ڈی پی ہم سے زیادہ ہے،جب کسی کو ایک عادت پڑھ جائے اور وہ نا سننا گوارہ نہیں کرتا تو اس کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے محفلوں میں ہمیشہ یس مین ہواور اس پیمانہ میں اضافہ ہوتاجاتاہے،دنیا ترق کررہی ہے شائد ہماری جی حضوری بھی 95فیصد تک پہنچ گئی ہوگی،انہوں نے کہاکہ حقیقی سیاست دان جو سیاست سے واقف تھے سیاست کاروبار کانام نہیں بلکہ اصول کانام ہے جنہوں نے اصولوں کیلئے جیلیں کاٹی،کوڑھے کھائیں انہیں غدار کرکے انہیں ختم کردیا،اب وہ حقیقی سیاست دان اتنے مایوس ہوگئے کہ وہ سیاست چھوڑ گئے،نئی جنریشن کو کہاجارہاہے کہ سیاست گند ہے آپ نہ جائیں،انہوں نے کہاکہ ایسے پیغام جس سے بدنامی ہو کی روک تھام کیلئے اگر کام نہ کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمدہونگے،صوبے میں چیف سیکرٹری اور آئی جی اگر یرغمال ہوتو معاملات آگے نہیں بڑھ سکتی،سندھ میں تمام ایریاز پولیس کے کنٹرول میں ہے، احتجاج،جلسے جلوس پرسب متفق تاہم استعفیٰ آخری مرحلہ ہوگا،ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے جو بھی اقدام اٹھانا پڑے ہم اپنا حق ادا کرینگے،استعفیٰ کیلئے پارٹی کے اپنے اداروں سے مشاورت کرینگے،27اکتوبر کو پارٹی کا مرکزی کمیٹی کااجلاس بلایاہے،حکومت میں شمولیت اور چھوڑنے کے فیصلے مرکزی کمیٹی کی مشاورت سے کئے ہیں،انہوں نے کہاکہ میں اپنی پارٹی کاپابند ہوں اگر استعفیٰ کا فیصلہ ہوتاہے تو ہم کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرینگے،انہوں نے کہاکہ ہم یہ شور کرینگے کہ صاف وشفاف آئینی حدود میں الیکشن ہوگا اور حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کریگی اور کسی قسم کی کوئی مداخلت برداشت نہیں کی جائیگی،انہوں نے کہاکہ حقیقی عوامی نمائندوں کو عوام کااحساس ہوتاہے جو ایک روپے کی مہنگائی پر بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں،ہم سیندک،ریکوڈک اور وسائل کو بچانے نکلے تھے ہمیں لگتاہے کہ اقتدار میں آنے والے کفن چور،ایک کفن چرا کرلے جاتاتھا لیکن دوسران کفن کی چوری کے ساتھ لاش کی بے حرمتی بھی کرتاتھااس کو بلوچستان اور سندھ کے لوگ کسی صورت برداشت نہیں کرینگے،گوادر میں ایک ماہ سے لوگ ہڑتال پربیٹھے ہیں پینے کا پانی نہیں،گوادر کے نام پر پاور پروجیکٹ بنائے گئے لیکن وہاں بجلی نہیں ایران سے بجلی آرہی ہے جو کسی وقت ہوتی ہے اور کسی وقت نہیں،ہزاروں سالوں سے لوگ اس سرزمین پر بیٹھے ہوئے ہیں جو وہاں کھیتی باڑی کرتے تھے اس وقت کسی کو یہ زمین نظر نہیں آج جب گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور گوادر پورٹ بن گیاہے آج ان زمینداروں کی زمینوں کو حکومت کے نام کیاجارہاہے کیا یہ سی پیک ہے،ہمارے ووٹ نہ دینے سے بھی حکومت بنتی،آج تمام اپوزیشن غداروں کے فہرست میں شامل ہوگئی ہے اگر کوئی غدار ہے وہ تو پاکستان دشمن ہے،بلوچستان میں پانچواں آپریشن جاری ہے،25اکتوبر کو تمام اپوزیشن اکھٹی ہورہی ہے شائد وہاں پر وزیرداخلہ صاحب جنگ کرناچاہتاہے،پاکستان دشمن پیدا کرنے والے ہمسایہ ہیں وزیرداخلہ اپنے بندوقوں کا رخ واہگہ بارڈر کی طرف کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے