صوبے میں کوئی مالی بحران نہیں حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ پی ایس ڈی پی پر کا م کرے ، جام کمال خان

لسبیلہ(گرین گوادر نیوز) سابق وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ بلوچستان حکومت کے خزانے میں ابھی بھی 40 سے 50 ارب روپے پڑے ہیں صوبے میں کوئی مالی بحران نہیں ہے موجودہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ پی ایس ڈی پی پر کام کرے اور پھر بھی پیسے بچیں گے آج اے جی آفس یا خزانہ آفس سے معلوم کیا جائے تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ 40 سے 50ارب روپے ہونگے میرے خیال میں وزیر اعلی میر عبدالقدوس بزنجو کو حساب خطاب کا تجربہ نہیں ہے پیسے بہت ہیں عوام کو اس بات سے نہ ڈرا جائے کہ صوبے کے خزانے میں پیسے نہیں ہیں ابھی اتنا پیسہ ہے کہ ترقیاتی کاموں سمیت تنخواہیں وغیرہ دی جاسکتی ہیں۔ یہ بات انہوں نے دورہ حب کے موقع پر میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان حکومت کی نئی کابینہ کے لیے میرے نیک خواہشات ہیں اچھی بات ہے ہم نے ساڑھے تین سال حکومت کی اب انکو موقع ملا ہے یہ ہونا چاہیے تاکہ عوام کو بھی پتہ چل جائے کہ ہماری حکومت کیسی تھی اور انکی حکومت کیسی ہم نے چیزوں کو کسطرح آگے لے گئے اب یہ کیا کرتے ہیں بالکل سب کو موقع ملنا چاہیے عوام کی خدمت کا میرا موجودہ کابینہ کو مشورہ ہے کہ وہ جلد از جلد کابینہ کا اجلاس طلب کرکے جو پچھلی حکومتوں کے اسکیمات ہیں اور جو ہم نے اسکیمات شروع کیں ان پر بحث مباحثہ کرکے انکو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں ان اسکیمات کو روکنے کی صورت میں عوام کو بہت بڑا مالی نقصان ہوگا تو میرا موجودہ کابینہ کو مشورہ ہے وہ اس پر غور کرے بلکہ ہماری ضرورت پڑی تو ہم بھی اپنے چھوٹے موٹے مشورے دہتے رہینگے ایک سوال کے جواب میں جام کمال خان نے کہا کہ ہم نے امن و امان کے حوالے سے بہت سارے منصوبے شروع کیے جن میں لیویز فورس کی اصلاح. بلوچستان پولیس کی اصلاح اور پولیس کو تمام تر سہولیات کی فراہمی اس کے علاوہ سول ایڈمنسٹریشن. سی ٹی ڈی. کمانڈ سیکٹرز. لیویز کے ڈھانچے کی بہتری. سیف سٹیز اور ٹاؤن کمیٹیوں کی منصوبہ بندیاں ہوں ایسے کافی منصوبے شروع کیے اب اگر آپ انکو نظر انداز کرینگے اور اس لیے آگے نہیں بڑھائیں گے کہ یہ کسی اور حکومت کی شروع کیں ہیں تو میرے خیال میں یہ بلوچستان کے عوام کے لیے نقصان ہے موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام منصوبوں کو آگے لیجائیں تاکہ عوام ان سے مستفید ہو.انہوں نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی اسکیمات کے لیے علاقائی سطح پر عام لوگوں سے تجاویز لیں جس کو کچھ لوگوں نے غلط رنگ دیا اور کہا کہ ہم نے غیر منتخب لوگوں کو اسکیمات دی ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اگر غیر منتخب لوگوں کی بات ہے تو آج بھی میڈیا پر ریکارڈ چیک کریں ہر پروگرام کے اسٹیج پر آپ کو غیر منتخب لوگ ملیں گے ہم نے عوام کی ترقی کے لیے لوگوں سے تجاویز لیں ہمارے لیے کوئی بھی غیرضروری نہیں ہے وزیر اعلی ہاؤس کا اپنا ایک احترام ہے اسکا وہ احترام برقرار رکھنے کی ہم نے کوشش کی ہے یقینا وہ عوامی ملکیت ہے لیکن وہاں عوام کے مسائل کا حل نکالا جائے تو بہتر ہے بجائے اسکو ایک ایس ایچ او یا تحصیلدار کا دفتر بنانے اگر آپ وزیر اعلی ہاؤس کو ایک دفتر بناؤگے تو عوام کے اجتماعی مسائل حل نہیں ہونے البتہ کچھ لوگوں کے انفرادی کام ہونگے. سابق وزیر اعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ میرے حوالے سے سوشل میڈیا پر پیپلزپارٹی میں شمولیت کے حوالے سے چلنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ہم بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ ہیں اور رہینگے سیاست میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے لیکن میرا کسی اور سیاسی جماعت میں جانے کا کوئی پروگرام ابھی تک نہیں یہ خبریں بے بنیاد ہیں. انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی مسئلہ جب چل رہا تھا تو اس میں بہت سے لوگ ملوث تھے کچھ لوگ مجھ سے ذاتی طور پر نہ خوش تھے اور کچھ لوگ میرے کابینہ سے ناخوش تھے تو یہ تسلسل جاری رہا اب بلوچستان کی عوام باشعور ہوچکی ہے سوشل.پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے انکو آگاہی مل رہی ہے اب عوام میں اچھے اور برے کا فرق نظر آنے لگا ہے کون ہمارے ساتھ تھا کون نہیں یہ آئندہ چند دنوں میں واضع ہوجائیگی پھر عوام اپنا رائے دے کہ کیا درست تھا اور کیا غلط تھا ہم نے جب حکومت بنائی تو ہمارے اوپر کافی دباؤ تھا ہم نے خواتین کو عہدیدے تو نہیں دیئے لیکن عہدیدوں سے کم نہیں رکھا ہر لحاظ سے انکو اپنے ساتھ لیکر چلے اس موقع پر سابق وزیر جام کمال خان نے حب میں مختلف شخصیات سے تعزیتیں کی اس موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں محمد یوسف بلوچ، سیف اللہ شیخ، حاجی قمرالدین رونجھو، ارشاد پارس مگسی ممتاز مگسی سمیت دیگر کثیر تعداد میں لوگ انکے ہمراہ تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے