ٹیکس کا پیسہ عوام کی امانت ہے جس کا غلط استعمال خیانت ہے، بلوچستان ہائیکورٹ
کوئٹہ (گرین گوادر نیوز) بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ بلوچستان میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے سب کو کردارادا کرنا ہوگا، ٹیکس کا پیسہ عوام کی امانت ہے جس کا غلط استعمال خیانت ہے۔ یہ ریمارکس انہوں نے گزشتہ روز آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر دئیے۔درخواست گزار بایزید خروٹی برخلاف سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد و دیگر کے خلاف آئینی درخواست نمبر 832-2021 کی سماعت چیف جسٹس پرمشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔درخواست گزار بایزید خروٹی نے عدالت کو بتایا کہ ان سے زیادہ اس عدالت میں موجود تمام لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں تمام بلوچستان کے عوام کے مفادات کی وہ تنہا جنگ لڑ رہے ہیں تقریبا بلوچستان حکومت نے وفاقی سروس کے آفیسران کو ایک خلاف آئین و قانون حکم نامے کے ذریعے تقریبا ایک ارب روپے کی رقم تنخواہوں سے زیادہ ادا کی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور یہ اس صوبے کے ساتھ ظلم عظیم ہے صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ یہ رقم وفاقی حکومت نے دینی ہے جبکہ ادائیگی صوبائی حکومت نے اپنے حصے سے کی ہے مجبور اور مایوس ہوکر عدالت عالیہ کے سامنے بطور درخواست گزار موجود ہے تاکہ صوبے کے عوام کے ساتھ انصاف ہو۔ سماعت کے دوران اکاونٹنٹ جنرل بلوچستان کے نمائندے شہزاد خان اکاونٹ آفیسر نے نمائندے کے طور اپنے دستخطوں سے آئینی درخواست میں اپنا جواب عدالت عالیہ کے روبرو جمع کروایا جس میں وفاقی حکومت کے صوبے میں تعینات پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے تعینات افسران کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ جمع کروائی گئی جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ گزشتہ چار سالوں میں حکومت بلوچستان نے وفاق کے صوبے میں تعینات افسران کو انکی تنخواہوں کے علاوہ 71کروڑ74لاکھ 52ہزا رروپے کی ادائیگی کی ہے جس میں 121افسران کو ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی مد میں 9کروڑ 20لاکھ 48ہزار 939روپے دیئے ہیں جبکہ 366افسران کو62کروڑ 54لاکھ15ہزار 91روپے الاونسز کی مد میں دیئے گئے ہیں یہ رقم جولائی 2017 سے مئی 2020 کے تک ادا کی گئی ہے 4سال کے دوران یہ ادائیگیاں کی گئی ہیں۔رپورٹ میں ایسے مقامی افسران کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جو کہ کبھی نہ انہوں نے اسلام آبادیا ملک کے کسی دوسرے صوبے میں سروس کی ہے انکی تمام سروس بلوچستان میں ہے لیکن انہوں نے وفاقی حکومت کے صوبے کے باہر سے ملازمین کے جیسے مراعات لی ہیں۔سماعت کے دوران سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد کی طرف سے سیکشن آفیسر ندیم ارشد نے اپنے دستخطوں سے تحریری جواب جمع کروایا جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار فریق نہیں ہے اور الزامات بغیر ثبوت کے لگائے گئے ہیں جس کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور عدالت کا ٹائم ضائع کرنے کے مترادف ہے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی اتھارٹی کو چیلنجز کیا گیا ہے سابق کمشنر کوئٹہ ڈویژن عثمان علی اورسابق ڈپٹی کمشنرطاہر ظفر عباسی کے معاملے میں ہمارا اختیار ہے کہ ہم انکو کہاں تعینات کرتے ہیں اسکو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا تاہم درخواست گزار کی جانب سے سابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ طاہر ظفر عباسی کے خلاف حکومت بلوچستان کی سفارش پرانکوائری کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کام شروع کردیا ہے اوراس سلسلے میں اسد رحمن گیلانی سیکرٹری ایگریکلچر گورنمنٹ آف پنجاب کو 27مئی 2021 کو انکوائری افسر بنایا ہے جوطاہر ظفر عباسی کے خلاف ڈسپلنری ایکشن انڈر سول سرونٹ رول 2020کے تحت انکوائری کی اور رپورٹ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو جمع کروادی جس پر مزید کارروائی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد نے کرنی ہے اور انہوں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کے نمائندے کے طور پر عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزار کی جمع کرائی گئی درخواست حقائق کے منافی قراردیکر خارج کی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں عدالت عالیہ نے سماعت 2ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے دیگر فریقین کو بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔