زیارت دھرنا، ایف سی کو ہٹانے کا مطالبہ میرے بس میں نہیں، ضیاءلانگو

زیارت (گرین گوادر نیوز) بلوچستان کے ضلع زیارت میں گذشتہ ہفتے بارودی سرنگ کے دھماکے میں جان سے جانے والے لیویز اہلکاروں کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے خنائی بابا کے قریب زیارت کراس پر دھرنا دے رکھا ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ ضلع زیارت سے ایف سی (فرنیٹئر کور) کو ہٹایا جائے۔مانگی ڈیم کے قریب بارودی سرنگ کے دھماکے میں لیویز کی گاڑی تباہ ہوگئی تھی، جس کے نتیجے میں تین اہلکار جان سے گئے اور تین زخمی ہوگئے تھے۔مظاہرین کے دھرنے کے باعث دونوں اطراف گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں، جس پر ہفتے کے روز صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو کی سربراہی میں حکومتی وفد نے مظاہرین سے مذکرات کیے۔مذاکرات کے دوران وفد نے مظاہرین کو بتایا کہ ان کے مطالبات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے، جس میں نواب ایاز جوگیزئی کو مظاہرین کی طرف سے شامل کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے شرکا سے دھرنا ختم کرنے اور لاشوں کی تدفین کا مطالبہ کیا۔مظاہرین نے باہمی مشاورت کے بعد حکومتی وفد کو دو دن کا وقت دیا کہ وہ ان کے مطالبات پر فیصلہ کرے اور دھرنے کو شاہراہ سے ہٹاکر قریبی علاقے میں منتقل کردیا گیا، جو اب بھی جاری ہے۔اس حوالے سے ضلع زیارت کی رہائشی اور معروف وکیل جمیلہ کاکڑ ایڈووکیٹ، جنہوں نے خود بھی دھرنے میں شرکت کی۔انہوں نے کہا کہ دھرنے کے بنیادی مطالبات میں اس وقت یہ سرفہرست ہے کہ علاقے سے ایف سی کا انخلا کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔مذاکرات کے دوران حکومتی وفد نے مظاہرین کو بتایا کہ ان کے مطالبات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے دھرنے سے خطاب کے دوران لیویز اہلکار مدثر کے بھائی نے مزید کہا کہ ’ہمارے مطالبات واضح ہیں کہ زیارت اور ہرنائی سے ایف سی کا انخلا کیا جائے اور ڈپٹی کمشنر کے خلاف انکوائری کی جائے۔ جب تک یہ مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہم اپنی لاشیں نہیں اٹھائیں گے اور نہ ہی تدفین کریں گے۔‘ادھر مظاہرین سے مذاکرات کے لیے جانے والے صوبائی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ایف سی کا شہر سے نکالنا ان کے ’بس‘ میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنادی گئی ہے، جس میں دھرنے کی طرف سے نواب ایاز جوگیزئی بھی شامل ہیں، جو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے۔صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے دو روز میں فیصلہ دینا ہے، تاہم دھرنے کے شرکا ایف سی کو نکالے جانے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں، جس سے پیچھے ہٹنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو کی طرف سے زیارت دھرنا مظاہرین کے ایف سی کو نکالنے کے مطالبے پر دائرہ اختیار نہ رکھنے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزارت داخلہ سے موقف لینے کی کوشش کی اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے میڈیا کوآرڈینیٹر علی سے وٹس ایپ پر رابطہ کیا، تاہم انہوں نے پیغام پڑھنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث صوبائی حکومت نے فرنٹیئر کور کو تعینات کرکے پولیس کے اختیارات بھی دے رکھے ہیں۔پشتون قومی اولیسی جرگے کنوئنرپشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری نوا ب ایا ز خان جوگیزئی نے کہا ہے کہ ہمارا بنیادی مطالبہ ایف سی کو ہٹاناہے اگر حکومت بلوچستان نے ہمارے مطالبات پر غفلت کا مظاہر ہ کیا تو ہم کوئٹہ شہر کی طرف روخ کر ینگے زیارت کراس پر احتجاجی دھر نے خطاب کر تے ہوئے کیا نواب ایازخان جو گیزئی نے کہا ہے کہ حکومت کو دو دن کا وقت دیا ہے اگر لو احقین کمیٹی اور پشتون قوم مطمئن ہوئے تو ہم اپنے شہیدوں یہا ں سے اٹھا کر دفنائیں گے اگر حکومت نے غفلت کا مظاہر ہ کیا تو اس کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہوگی انہو ں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ ایف سی کو زیارت اور ہرنائی سے ہٹانا ہے اگر نہیں ہٹایا گیا تو پھر ہم تمام سیاسی پارٹیاں،قبائلی مشران کے ہمراہ بیٹھ کر اپنا آئندہ لاعمل طے کر ینگے پھر کوئٹہ شہرکو مجبوراَبند کر دینگے یا تو حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرے ورنہ سخت احتجاج پر ہمیں مجبور نہ کریں پشتو ن قوم نے اتحاد و اتفاق مظاہر ہ نہیں کیا تو شاہد ہم بربادی کی جا نب جائیں گے تمام پشتو ن قوم سے اپیل کر تا ہو ں کہ سانحہ زیارت احتجاجی دھر نے میں پہنچ جائے تاکہ ہم اپنے پشتون قوم کا جائز مطالبات حکومت سے تسلیم کر وائیں۔جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر اور بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈووکیٹ رکن صوبائی اسمبلی حاجی عبدالواحد صدیقی رکن صوبائی اسمبلی سید عزیز اللہ آغا جے یوآئی کوئٹہ کے سیکرٹری جنرل حاجی بشیر احمد کاکڑنے شہدائے مانگی ڈیم زیارت کے احتجاجی کیمپ میں لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ بے حس حکومت لواحقین کے احتجاج اور مطالبات پر غور کرنے میں تاخیر کرکے مزید اشتعال پیدا کرنا چاہتی ہے فرزندان زیارت کی لاشیں نااہل اور بے حس حکومت سے انصاف مانگ رہی ہیں مگر وزیراعلی اور ذمہ دار حلقوں کو یہ توفیق نہیں ہورہی ہے کہ لواحقین کی اشک شوئی کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے