90 فیصد مقدمات میں مجھے علم ہی نہیں کہ کیس کس کے خلاف ہے، جاوید اقبال
قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ 90 فیصد مقدمات میں مجھے علم ہی نہیں کہ کیس کس کے خلاف ہے جہاں محسوس ہوا کہ مقدمہ بنتا ہے وہیں کیس بنایا ہےایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نیب پر تعمیری تنقید کریں جس سے ادارے کو فائدہ ہو لیکن اس کے لیے آپ کو تمام متعلقہ قوانین کا علم ہونا چاہیے اگر آپ صرف گالیوں سے نوازیں گے تو اس سے نیب کا کیا فائدہ ہوگا انہوں نے کہا کہ نیب سے بھی پوچھ لیا جائے کہ یہ جو الزامات آپ پر لگ رہے ہیں اس کا کیا جواب دیں گے لیکن الزامات اتنے تواتر سے لگ رہے ہیں کہ جواب دینے کا وقت ہی نہیں ملتاان کا کہنا تھا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نیب نے کوئی زیادتی کی ہے تو عدلیہ آزاد ہے مضبوط ہے تو اس سے رجوع کریں لیکن لوگ عدالتوں سے اسی لیے رجوع نہیں کرتے کہ مقدمات بے بنیاد نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کو کسی سے کیا پرخاش ہوگی جو اس کے خلاف کیسز بنائے، 90 فیصد مقدمات میں مجھے علم ہی نہیں کہ کیس کس کے خلاف ہے جہاں محسوس ہوا کہ مقدمہ بنتا ہے وہیں کیس بنایا ہے ان کا کہنا تھا کہ نیب کا ادارہ اسی لیے وجود میں آیا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کوشش کی جائے اور جب یہ کیا جاتا ہے تو الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن الزام کسی نوعیت کا بھی ہو، کردار کشی ہو، بلیک میلنگ ہو دھمکیاں یا لالچ ہو نیب اپنا کام کرتا رہے گا چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ یہ بات تواتر سے دہرائی جاتی ہے کہ نیب پلی بارگین کرتا ہے، حالانکہ پلی بارگین قانون کے مطابق کی جاتی ہے جس کی حتمی منظوری عدالت دیتی ہے، چیئرمین اپنی سفارشات عدالت کو بھیج دیتا ہے اور کیا یہ بہتر نہیں کہ اگر 100 روپے ڈوب رہے ہوں تو اس میں سے 95 روپے مل جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب صرف حالات و واقعات اور شواہد کو سامنے رکھ کر طے کرتا ہے کہ پلی بارگین کی رقم کتنی ہو اور اگر یہ ثابت ہو کہ نیب کے کسی ریجن میں زبردستی پلی بارگین کرائی گئی تو میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں کہ جو چاہیں سزا دیں لیکن آج تک کسی سے زبردستی پلی بارگین نہیں کرائی گئی جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق صرف لاہور ریجن اب تک 10 ارب روپے سے زائد کی رقم متاثرین میں تقسیم کرچکا ہے ورنہ یہ لوگ 50 سال بھی پھرتے رہتے تو دسواں حصہ بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کا تصور صرف پاکستان نہیں بلکہ ڈنمارک، انڈیا، برطانیہ، امریکا، نیپال جیسے ممالک کے انسداد بدعنوانی کے قوانین میں یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ان کا کہنا تھا کہ جہاں متاثرین کو ڈوبی ہوئی رقوم واپس نہیں کی جاسکی وہاں انہیں پلاٹ ملے ہیں چیئرمین نیب نے کہا کہ میں عوام بالخصوص اہلِ لاہور پر یہ زور دیتا ہوں کہ جب سرمایہ کاری کریں تو اتنی معصومیت اور بھولے پن سے کام نہ لیں کہ فراڈیوں کو بار بار دھوکی دینے کا موقع ملے۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹ اتنی تواتر سے بولا جاتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے، کہا جاتا ہے کہ نیب کے مقدمات میں فیصلے نہیں ہوتے، اگر فیصلہ کرنے کا اختیار ہو تو میں زیر التوا 12 سو سے زائد ریفرنسز کا فیصلہ 2 ماہ کے اندر کردوں لیکن یہ اختیار نیب کے پاس نہیں ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ نیب خود اپنے مقدمات نظر ثانی کررہاہے تا کہ بے شمار گواہان میں سے معیاری گواہان کو منتخب کیا جائے اور کوشش کی جائے گی کہ موجودہ ریفرنسز کو فیصلہ جلد از جلد ہوں انہوں نے کہا کہ قانون میں ہے کہ 30 روز میں نیب ریفرنس کا فیصلہ ہوجائے لیکن میں خود عدالتی نظام کا حصہ رہا ہوں مجھے معلوم ہے کہ حالات ایسے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے ۔
اس لیے جب ارباب اختیار نیب قانون میں ترمیم کا کہتے ہیں تو میں اسے خوش آمدید کہتا ہوں کہ وہ ترامیم کریں کہ جس سے عوام کو فائدہ ہو، جس سے احتساب کا عمل بہتر ہوں بدعنوانی کا خاتمہ ہو لیکن اگر وہ ترامیم لانا چاہیں جس سے یہ سب کرنے والوں کو فائدہ پہنچے تو پہلے بھی اس کی تائید نہیں کی تھی ان کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس وہ قانون ہے جو نہ سپریم کورٹ بلکہ دیگر عدالتیں بھی جائزہ لے چکی ہیں، ہمیں قانون کے مطابق کام کرنا ہے پارلیمان جو بھی قانون بنائے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔