شہید عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی کو پشتون قومی سیاسی تحریک کیلئے وقف کیا تھا، محمود خان اچکزئی

ژوب (گرین گوادرنیوز) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری صوبائی صدر ملی اتل ملی شہید محمدعثمان کاکڑ کے شہادت کے عظیم سانحہ پر پارٹی کے احتجاجی تحریک کے سلسلے میں ژوب شہر میں پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی قیادت میں ایک عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین نے ژوب شہر کے تحصیل روڈ، مارکیٹ روڈ، قندہاری بازار، کالج روڈ پر بڑے جلوس کی صورت میں ملی شہید افغان شہید۔ عثمان شہید عثمان شہید، ملی شہید کے قاتلان۔ ریاستی دہشتگردان کے فلگ شگاف نعرے لگائیں۔ جلوس میں پارٹی کے مرکزی وصوبائی قائدین اورضلع ژوب کے عہدیداران کے علاوہ ضلع بھر کے پارٹی کارکنوں اور ژوب کے عوام نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی مظاہرے کے بعد باز محمد شہید گراؤنڈ نمبر ون میں پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت ایک عظیم الشان احتجاجی جلسہ عام کا انعقادہوا۔ جس سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری رضا محمد رضا، ملی شہید کے فرزند ارجمند خوشحال خان کاکڑ اور ضلعی سیکرٹری قیوم ایڈووکیٹ نے خطاب کیا۔ جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض جمال مندوخیل نے سرانجام دیا جبکہ تلاوت کلام پاک کی سعادت مولوی عبداللہ نے حاصل کی۔ ژوب کا یہ تاریخی جلسہ عام شدید بارش میں جاری رہا۔ اس احتجاجی جلسہ عام میں ژوب کے وطنپال اور باشعور عوام نے شدید بارش میں پارٹی رہنماؤں کے تقاریر انتہائی استقامت کے ساتھ غور سے سنے۔ جناب محمود خان اچکزئی نے ژوب کے وطنپال عوام کو ملی شہید عثمان خان کاکڑ کی تاریخی نماز جنازہ اور اور فاتحہ خوانی میں بھرپور شرکت کرنے اور پارٹی کے احتجاجی تحریک کے سلسلے میں ژوب شہر میں عظیم الشان مظاہرہ اور شدید بارش میں جلسہ عام میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت پر داد وتحسین پیش کیا۔اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ضلع موسیٰ خیل اور ضلع شیرانی کے بعد ژوب کے عوام نے ملی شہید عثمان خان کاکڑ کی شہادت پر احتجاجی تحریک میں بھرپور شرکت کرکے اس ملی سانحہ کے غم میں ہمارے ساتھ برابر کی شرکت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کا مرکزی سیکرٹری اور پشتون قومی تحریک کے ایک ممتاز رہنماء عثمان خان کاکڑ کی شہادت پشتون افغان ملت کا ایک عظیم قومی سانحہ ہے پشتونخوامیپ نے اس عظیم شہید کی شہادت کے ناروا اقدام کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی ہے جس میں ہم نے اپنے عوام کے سامنے واضح موقف رکھاہے کہ ملی شہید کا گناہ صرف یہ تھاکہ انہوں نے انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ حکمرانوں کے سامنے اپنی پارٹی اور پشتون افغان عوام کا متفقہ قومی موقف پیش کیا وہ یہ کہ اس ملک میں پشتون افغان عوام کو اپنی تاریخی سرزمین پر متحدہ اور خودمختیار قومی صوبہ پشتونخوا کی تشکیل کا آئینی اسلامی اور قومی حق حاصل ہے۔ جس طرح بلوچ سندھی اور پنجابی قوموں کو اپنے ملی تشخص کے عکاس قومی وحدت پر مبنی متحدہ صوبوں کا حق حاصل ہے اسی طرح پشتونوں کو بھی ان کا قومی حق دیا جائے۔ اور یہ کہ پاکستان برادر اقوام کا مشترکہ فیڈریشن ہے جس میں قوموں کی برابری کی بنیاد پر ایک جمہوری فیڈریشن کی تشکیل، آئین وقانون کی حکمرانی اور منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ملک کے تمام اقوام وعوام کا برحق جمہوری مطالبہ ہے۔ اور یہ کہ آزاد اور جمہوری افغانستان کے عوام کو اپنے ملک میں اپنی مرضی کی نظام حکومت اورامن کے ساتھ تعمیر وترقی کا حق حاصل ہے۔ اور افغانستان پر جارحیت کی انسانیت سوز جنگ کا فوری خاتمہ تمام پشتون افغان ملت کا اولین قومی مطالبہ ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے آئین وقانون کے اصولوں، قوموں اور عوام کے روایات کے تمام اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے اس عظیم قومی رہنماء محمد عثمان کاکڑ کے گھر میں گھس کر ان پر ایسا جان لیوا حملہ کیا کہ جس کے نتیجے میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ہم نے اس عظیم شہید کی شہادت کے سانحہ پر تمام پشتونخوا وطن کے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور ہمارے عوام نے اپنے قومی جرگہ میں جو بھی قومی فیصلہ کیا ہم اس کوعملی بنانا پشتونخوامیپ اور تمام پشتون افغان ملت کا قومی فریضہ ہوگا۔ ہم نے ملی شہید کی تاریخی جنازہ میں شریک لاکھوں عوام سے مطالبہ کیا تھا کہ قومی وجود کی بقاء اورقوم کی حیثیت سے اپنی جان ومال اور عزت وناموس کی تحفظ کیلئے پشتونوں کے ہر خاندان کو قومی تحریک کیلئے ایک فرد کو وقف کرنا ہوگا۔ اگر پشتونوں نے اس قومی ضرورت کا احساس کیا تو پھر کسی استعماری طاقت کو ہمارے خلاف کسی قسم کی جارحیت کی جرات نہ ہوگی اور پھر ہر کسی کو ہمیں جان ومال کی نقصان کا حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پشتون افغان اس ملک میں اپنی قومی وحدت کے قیام کے مطالبے اور برابری کی بنیاد پر جمہوری فیڈریشن کی تشکیل کے مطالبے اور آئین وقانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے مطالبے سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہونگے اور نہ ہی آزاد اور جمہوری افغانستان میں جارحیت ومداخلت کی جنگ کے خاتمے، افغانستان کی ملی استقلال،آزادی وسلامتی اورداعمی امن کے قیام کے مطالبے سے دستبردار ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ وطن کو ماں کی حیثیت حاصل ہے وطن سے وفاداری ہر پشتون افغان کا ملی اور دینی فریضہ ہے لیکن پاکستان کے استعماری حکمرانوں کا پیمانہ یہ ہے کہ جو بھی وطن فروشی اور عوام دشمنی پر آمادہ ہو وہ وفادار ہے اور جو ایک آزاد اور جمہوری پاکستان کا مطالبہ کرتا ہے وہ واجب القتل ہے؟ ہماری جمہوری تحریک نے ہمیشہ آئین وقانون کا احترام کیا ہے اور کبھی بھی خلاف آئین اقدام نہیں اٹھایا مگر دفعہ 144کی خلاف ورزی پر ہزاروں پشتون سیاسی کارکنوں کو خون ناحق بہایا گیا اور ہمارے قومی رہنماؤں کو سالہا سال کی قید وبند کی سزائیں دی گئیں۔ اس ملک کے فوجی آمروں نے بار بار اس ملک کے آئین کو توڑا ہے لیکن کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔ اس ملک اور خصوصاً پشتونخوا وطن میں حکومت نام کی کوئی شہ موجود نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمارے عوام نے اپنے قومی جرگوں کے ذریعے اپنے مسائل اور آپس کے تنازعات کا حل نکالنا ہوگا۔ مندوخیل اور سلیمانخیل، دوتانی وشیرانی، وزیر ودوتانی قبائل کے آپس کے تنازعات میں حالیہ وقتوں میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہواجس کا حکمرانوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ان حالات میں دیگر تمام قبائل سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسا جرگہ قائم کرے جو ان متصادم قبائل کے تنازعات کا فیصلہ کریں۔ اسی طرح ہمارے قومی مسائل کا حل بھی خود ہمارے وطن کے قومی سیاسی پارٹیوں نے نکالناہوگا۔ سندھ کی مثال ہمارے سامنے ہیں کہ جب بھی سندھ کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سندھ کی تمام سیاسی قوتیں باہم متحد ہوکر اس کا حل نکال لیتے ہیں تو پشتونخوا وطن کی سیاسی جمہوری قوتیں بھی متحدہ قومی محاذ بناکر اپنے قومی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ پشتونخوامیپ ایسے قومی محاذ کی سربراہی کا دعویدار نہیں ہم مولانا فضل الرحمن سمیت ہر پشتون رہنماء کی قیادت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری محکومی کی یہ حالت ہے کہ اس مشترکہ پشتون بلوچ صوبے میں جنوبی علاقے کیلئے 800ارب روپے کی ترقیاتی پیکج کا اعلان ہواجبکہ پشتون علاقے کو ہمیشہ یکسر نظرا نداز کیا جاتا رہا ہے کیا ہمارے حکمران پشتونوں کو بھی بندوق اٹھانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ان کا پیغام یہ ہے کہ بندوق اٹھانے کے بغیر پشتونوں کو ترقیاتی منصوبوں کا حق نہیں مل سکتا۔ انہوں نے افغانستان کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل خصوصاً دنیا کے پانچ طاقتور ممالک افغانستان میں قیام امن کے اولین ذمہ دارہیں کیونکہ افغانستان پر جارحیت اور مداخلت کی چالیس سالہ جنگ کے اصل ذمہ دار بھی یہی ممالک ہیں اگر تاریخی افغانستان اور افغان غیور ملت کو مستقل اور داعمی امن کی ضمانت فراہم نہ کی گئی توافغانستان میں جاری جنگ کے تباہ کن اثرات سے خطے کے ممالک محفوظ نہیں رہ سکتے افغانستان کی بدامنی دنیا کی بدامنی پر منتج ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جنرل صاحب نے فرمایا ہے کہ ایم این اے علی وزیر معافی مانگے میں جنرل صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ کس بات کی معافی؟ ملک کے آئین کو تو بار بار جرنیلوں نے توڑا ہے جو آرٹیکل 6کے تحت غداری ہے علی وزیر نے آئین کی کس شق کی خلاف ورزی کی ہے جس پر وہ معافی مانگ لیں۔ ہمارے آئین نے علی وزیر کو تحریر وتقریر اور جلسہ وجلوس کا حق دیا ہے اور علی وزیر نے اس حق کا استعمال کیا ہے۔ عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ایم این اے علی وزیر کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ملی شہید محمد عثمان کاکڑ کے فرزند ارجمند خوشحال خان کاکڑ نے ژوب کے وطن پال اور باشعور عوام کو اپنے والد ملی شہید عثمان خان کاکڑ کی شہادت کے سانحہ پر پارٹی کے احتجاجی تحریک میں بھرپور شرکت پرشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ژوب کے عوام سے خطاب کا موقع میرے لیئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ ژوب قومی تحریک کی عظیم رہنماؤں سائیں کمال خان شیرانی، عبدالرحیم خان مندوخیل اور ان کے عظیم شاگردوں محمد جان لالا، شیر جان لالا اور شہدا وطن کلیوال شہید، باز محمد باز شہیداور ظریف شہید کا شہر ہے۔ ضلع ژوب کے عوام نے قومی تحریک میں ہمیشہ پر افتخار کردار ادا کیا ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد ملی شہید عثمان خان کاکڑ نے اپنی زندگی کو پشتون قومی سیاسی تحریک کیلئے وقف کیا تھا۔ انہوں نے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی متعین کردہ قومی نجات کی راہ کا انتخاب کیا تھا اور اپنے عظیم قومی رہنماؤں سے سیاسی تعلیم وتربیت حاصل کرکے قومی تحریک میں قربانیوں کا کٹھن سفر شروع کیا تھا۔ جب پشتونخوامیپ کے قومی رہنماؤں وکارکنوں کو قومی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے