مایوس لوگوں نے پہاڑوں کا رخ کیا جس کی ذمہ دارریاست ہیں، نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی

کوئٹہ (گرین گوادرنیوز) بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ صوبے کے عوام کا اعتماد وفاق سے اٹھ گیا ہے بلوچستان کا سنجیدہ سیاسی کارکن مذاکرات کے اعلانات پر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں، یہاں سیاسی عمل میں اسٹیلشمنٹ مداخلت کرتی ہے مایوس لوگوں نے پہاڑوں کا رخ کیا جس کی ذمہ دارریاست اور اس کے ادارے ہیں۔یہ با ت انہوں نے منگل کے روز نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہی۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے وزیراعظم عمران خان کے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا سنجیدہ سیاسی کارکن اسلام آباد کے ان اعلانات پر کبھی خوش فہمی میں نہیں رہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی عمران خان کی حکومت سے صوبے کی قوم پرست جماعت نے مذاکرات کرکے چھ نکات پیش کئے ان میں کوئی خاص مطالبہ شامل نہیں تھا بلکہ عام مطالبات تھے اس پر تو عملدرامد ہوسکتا تھا مگر نہیں کیا گیا،اب اچانک عمران خان کو ایک مرتبہ پھر خیال آیا ہے کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں آیا یہ مذاکرات افراد سے ہونگے یا بلوچستان کے لوگوں کیساتھ کئے جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ سات دہائیوں سے اس قسم کے اعلانات ہوتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں صوبے کے لوگوں کا اعتماد وفاق سے اٹھ گیا ہے۔ بلوچستان کو آئینی حقوق نہیں دیئے جارہے سیاسی عمل میں اسٹیلشمنٹ کی دخل اندازی ہے، این اے 265 سے متعلق عدالتی فیصلہ آنے کے باوجود ریاست ڈپٹی اسپیکر کو تحفظ فراہم کررہی ہے جس کے نتیجے میں این اے 265 کا کیس عدالت میں نہیں چل رہا،سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حقیقی نمائندوں کو باہر رکھا گیا ہے، اور مایوس لوگ پہاڑوں کا رخ کررہے ہیں اس کی ذمہ دار ریاست اور اس کے ادارے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اگر بااختیار ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کو ایک اکنامک اور آئینی تھیرپی کی ضرورت ہے ریاست اور بلوچستان کے لوگوں میں جو اعتماد کا فقدا ن ہے ریاست کو پہل کرکے اس کو اعتماد کو بحال کرنا چائیے۔ 1948ء میں جب آغا عبدالکریم نے بغاوت کی اس کی وجہ یہ تھی کہ قومی سوال ہمارا اہم مسئلہ ہے اس وقت را نہیں تھی اس کا الزام بھارت یا کسی اور پر نہیں لگاسکتے۔ انہیں گرفتار کرکے 20 سال تک جیلوں میں رکھا اس کے بعد نواب نوروز خان کا واقعہ ہوا ہمیشہ سے بلوچستان میں بد اعتمادی رہی ہے اس کی وجہ ریاست ہے۔ ڈائیلاگ کا راستہ پارلیمنٹ ہے مختلف مکتبہ فکر کے لوگ اپنی سیاسی جماعتوں اور لوگوں اور ریاست کیساتھ پارلیمنٹ کے ڈائیلاگ کرتے ہیں مگر ریاست نے حقیقی سیاسی قیادت پر پارلیمنٹ کا راستہ ڈائیلاگ کا راستہ روکا ہے جس کی وجہ سے لوگ مایوس ہوکر پہاڑوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صوبے میں سترہ کروڑ روپے میں سینیٹ کی نشست فروخت ہورہی ہے اور اس نے خود اس سترہ کروڑ والے کو گلے سے لگایا جس کا بلوچستان سے 20 فیصد بھی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرمالک بلوچ کے دور میں بھی ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی بات ہوئی تھی تاہم یہ ناکام اس لیے ہوئے تھی کیونکہ لوگوں نے ا ن کو کہا کہ آپ کے پاس اختیار نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت بااختیار ہے تو اٹھارویں ترمیم کے تحت اختیارات کو بلوچستان منتقل کرکے ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کیلئے ایک میکنزم تیار کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے