قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ اکثریتی ووٹوں سے منظور

اسلام آباد: ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اور وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل پر اپوزیشن نے سخت مخالفت کی۔ایوان میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔

فنانس ترمیمی بل کی تحریک کے حق میں 172 مخالفت میں 138 ووٹ پڑے جس کےبعد قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ نے بل کی شق وار منظوری کے لیے مسودہ پڑھ کر سنایا۔

قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا اور اسپیکر نے بجٹ کی منظوری کے لیے وائس ووٹ کیا اور بجٹ کو منظور کر لیا گیا۔

اپوزیشن نے وائس ووٹ کی مخالفت نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس اسے مسترد کرنے کے لیے درکار ووٹ نہیں ہیں۔

علاوہ ازیں اپوزیشن کی جانب سے ترمیم پیش کی گئی جس پر ووٹنگ کے بعد انہیں مسترد کردیا گیا جبکہ حکومتی ترامیم کا منظور کرلیا گیا۔

فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے نئی شق کا بھی اضافہ کیا گیا اور حکومتی ترمیم کی اپوزیشن نے بھی مخالفت نہیں کی جبکہ ترمیم کے تحت ارکان اسمبلی کو اب ائیر ٹکٹس کے بجائے واؤچر دیے جائیں گے۔

اس دوران وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے مسلم لیگ (ق) کےرہنما طارق بشیر چیمہ سے سوال کیا کہ آپ کے اراکین کہاں ہیں۔

جس پر طارق بشیر چیمہ نے جواب دیا کہ ہمارے تمام کے تمام اراکین اسمبلی ہال میں موجود ہیں اور انہوں نے تمام (ق) لیگ کے اراکین کوپرویز خٹک کو گن کر تسلی کرائی۔

فنانس ترمیمی بل پیش کرنے سے قبل ہی ایوان زریں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ایوان میں پہنچ گئے اور اراکین اپوزیشن نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔

اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین نے باری باری خورشید شاہ سے ملاقات کی جو پروڈکشن آرڈر پر رہائی ملنے کے بعد اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

اسی دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی قومی اسمبلی پہنچ گئے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو قومی اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے بجٹ پر تنقید کے جواب میں کہا کہ یہ اعداد و شمار رکھے ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے کیونکہ ہم صرف باتیں کرنے والوں میں سے نہیں ہیں عملی اقدام بھی اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو مہنگائی کی شرح 7 فیصد ہے اور سابقہ حکومتوں کے وقت بھی 7 فیصد تھی لیکن خوارک پر مہنگائی بڑھی ہے کیونکہ سابقہ حکومتوں نے زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چینی اور دیگر اشیا ضروری ایمپورٹ کرنی پڑتی ہیں اور عالمی منڈی میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 10 برس میں اتنی نہیں تھی جتنی آج ہیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ خوراک سے متعلق مہنگائی کا صرف ایک ہی حل ہے کہ اس کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے، مالی سال 2018 میں زراعت کے لیے ایک ارب 60 کروڑ روپے رکھا گیا تھا جبکہ موجودہ بجٹ میں 63 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ ‘اپوزیشن جماعتیں 20 ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئے اور اس کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف جانا پڑا، آئی ایم ایف نے شرائط عائد کیں، معیشت میں سکڑاؤ پیدا ہوا اور اس دوران کووڈ 19 کی وفا شروع ہوگئی’۔انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرکے کہا کہ ‘میں میرٹ والا شخص ہوں اس لیے میرٹ کی بنیاد پر تنقید کریں’۔

شوکت ترین نے کہا کہ ‘اس وقت ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی تفصیلات آگئی ہیں جنہوں نے کبھی ٹیکس نہیں دیا اور اس کے نتیجے میں ہماری جی ڈی بی 10 فیصد کے گرد ہی گھوم رہی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ڈیری مصنوعات، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس، پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس نہیں لگا رہے جبکہ کپاس پر ٹیکس نہیں لگایا لیکن کپاس پر جننگ فیکٹری سے ٹیکس لیا جائے گا۔

پڑوڈکشن آرڈر کے بعد قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ خطاب کے دوران خورشید شاہ نے کہا کہ آج غریب کے لیے ادویات خریدنا مشکل ہے اور حکومت کی جانب سے ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس ایوان میں کہہ رہا ہوں کہ ہیلتھ کارڈ کا بہت بڑا اسکینڈل سامنے آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘کیونکہ جو کام ہورہا ہے اور ہسپتال اور ‘بندے’ کے درمیان ہے، ادویات 500 فیصد مہنگی ہوگئی ہیں، بغیر کسی خوشامد کے کہوں گا کہ طبی سہولیات فراہم کرنے میں سندھ کو لاکھ مرتبہ سلام ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ سندھ کے ہسپتالوں میں افغانستان سے مریض آتے ہیں، لاکھوں کے آپریشن یہاں مفت ہوتے ہیں اور ان سے ان کا شجرہ نصب نہیں پوچھا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ زراعی شعبے میں تحقیق کا فقدان پہلے سے ہے اور اب کھاد کسان کی قوت خرید سے باہر ہے، یہاں فی ایکٹر 30 من گندم کی پیداوار جو کہ ہم زرعی ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ امید تھی کہ وزیر خزانہ ٹیکس فری بجٹ دیں گے، موجودہ حکومت بھاری ٹیکس لگا کر بجٹ پاس کررہی ہےاور بعد میں پریشان ہوتے پھریں گے۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر شکر ادا کیا کہ میں جیل میں ہوں کیونکہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے، آپ نے عوام کو کون سا چہرہ دکھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا چہرہ ایسا ہونا چاہے کہ عوام کہیں کہ عوام نمائندے مسائل کے حل کےلیے کوشاں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو باتیں کی ہیں اس پر عمل نہیں ہوگا’۔

اپوزیشن نشستوں پر موجود پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر میں بحث کا حصہ بنتے ہوئے حکومت کے ٹیکسیشن کے عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس میں امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر سب کو برابر ٹیکس دینا ہوتا ہے۔

سید نوید قمر نے کہا کہ زیادہ آمدن والے افراد سے ٹیکس وصولی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ معاشرے کے نیم متوسط اور متوسط طقبے پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو ہرساں کرنے کا عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ ہو اور لوگوں کا اعتماد اداروں پر قائم ہو۔

سید نوید قمر نے کہا کہ اس وقت ملک کا کاروباری طبقہ پہلے ہی قومی احتساب بیورو (نیب) سے تنگ ہے اور اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیے جا رہے ہیں اور کاروباری طبقہ کہے گا ایف بی آر سے بچاؤ، نیب کے حوالے کر دو۔

انہوں نے کہا کہ موبائل فون آج کل کی عام ضرورت ہے جبکہ موبائل فون کالز پر ٹیکس لگانے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی باتوں، دعووں اور فنانس بل میں تضاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئل ریفائنریوں کو جو مراعات دی گئی تھی وہ واپس لے لی گئی ہیں جبکہ ٹیکسیشن کے نظام کو سہل بنانا پڑے گا کیونکہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ جائیں گے اور انکم ٹیکس سے متعلق ترامیم ٹیکسیشن کے نظام کو مشکل بنا دیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے