محکمہ صحت میں خریداری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا،چیف سیکرٹری بلوچستان

کوئٹہ: محکمہ صحت میں خریداری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا ہوگاکاغذات میں خریداری اور زمین پر کچھ نہیں ہوتا آڈٹ اینڈ مانیٹرنگ سسٹم فیل ہوچکا، محکمہ صحت میں خریداری کا عمل شفاف بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے محکمہ صحت میں بیپرا رولز کی صریحا خلاف ورزی کرتے ہوئے جعلی خریداری کی جاتی ہے ایسے کیسز میں بیڈا ایکٹ کے تحت کاررائی کرتے ہوئے مقدمات فوری طور پر نیب انٹی کرپشن کو دئیے جائیں جعلی خریداری کو روکنے کے لیے اسٹینڈرڈ بڈنگ ڈاکومنٹ کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے مینو فیکچرنگ فرمز کو شامل کیا جائے گا۔ محکمہ صحت بلوچستان میں کرپشن کے خاتمے اور اصلاحات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار چیف سیکرٹری بلوچستان فضیل اصغر اور ڈی جی نیب نے نیب بلوچستان کے زیر اہتمام محکمہ صحت میں کرپشن کے تدارک اور اصلاحات کے موضوع پر ورکشاپ کے دوران کیا۔ سیکرٹری خزانہ، ایڈیشنل سیکرٹری صحت، سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، وائس چانسلر بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز، ڈی جی ہیلتھ سروس، میڈیکل سپرنٹنڈنٹس سول ہسپتال، فاطمہ جناح جنرل اسپتال، چیف ڈرگ انسپکٹر، ڈائریکٹر پرونشل ڈرگ ٹیسٹنگ لیب، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، ڈپٹی ڈائریکٹر ریجنل آفس ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے ورکشاپ میں شرکت کی۔ ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان فرمان اللہ نے کہا کہ ماضی میں محکمہ بی اینڈ آر اور کسٹمز کے بارے میں کرپشن کا تصور پایا جاتا تھا تاہم اب محکمہ صحت اور تعلیم میں سب سے زیادہ کرپشن کی شکایات ہیں، کرپشن کے ناسور کے باعث سسٹم کولیپس کر چکا ہے عام آدمی مشکلات کا شکار ہے،کاغذات میں خریداری اور زمین پر کچھ نہیں ہوتا آڈٹ اینڈ مانیٹرنگ سسٹم فیل ہو چکا ہے۔ انہوں نے محکمہ صحت میں خریداری کا عمل شفاف بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے،محکمہ صحت میں بیپرا رولز کی صریحا خلاف ورزی کرتے ہوئے جعلی خریداری کی جاتی ہے ایسے کیسز میں بیڈا ایکٹ کے تحت کاررائی کرتے ہوئے مقدمات فوری طور پر نیب انٹی کرپشن کو دئیے جائیں۔ انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے مقاصد کے لئے خریداری کا ٹھیکہ چھوٹی فرمز کو دیا جاتا ہے ضروری ہے کہ مینو فیکچر نگ فرمز کو شامل کیا جائے، جعلی خریداری کو روکنے کے لیے اسٹینڈرڈ بڈنگ ڈاکومنٹ کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، غیر معیاری ادویات اور طبی ساز و سامان کی خریداری سے مزدور سے لیکر صدر تک سب متاثر ہوتے ہیں، کسی بھی محکمے میں سب افسران یا اہلکاران کرپٹ نہیں چند کالی بھیڑیں پورے محکمے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ڈی جی نیب بلوچستان نے کہا کہ کوئی وائس چانسلر یا ڈاکٹر گرفتار ہو دلی دکھ ہوتا ہے، بلوچستان میں محدود وسائل ہیں یہ بھی کرپشن کی نظر ہوجائیں تو غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، بلوچستان کے غریب افراد کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان نے شرکاء کو بتایا کہ ورکشاپ کے انعقاد کا مقصد صحت کے شعبے میں بدعنوانی سے متعلق امور پر تمام سٹیک ہولڈرز سے سیر حاصل گفتگو اور مکمل غور و خوض کے بعد صحت جیسے اہم شعبے سے تمام خرابیوں، کرپشن کا سبب بننے والے نقائص اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا ہے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان فضیل اصغر نے اس موقع پر نیب کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا ہونگے، صحت کے مقدس شعبے میں کرپشن ظلم کے مترادف ہے، انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے تدارک کے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مربوط حکمت عملی کے ذریعے بہتر اصلاحات لائی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے قیام سے محکمہ صحت سے کرپشن کا خاتمہ ممکن بنایا جائے گا۔ قبل ازیں ورکشاپ کے شرکاء نے شعبہ صحت سے کرپشن کی روک تھام کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے