محکمہ صحت کے خلاف باقاعدہ مافیاز کی جانب سےپروپیگنڈا کیا گیا ،ہم کسی بھی ہسپتال کو نہیں بیج رہے،بخت محمد کاکڑ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) محکمہ صحت بلوچستان حکام کی جانب سے صحت عامہ کی موجودہ صورتحال، چیلنجز اور محکمے کی بہتری کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق اراکین اسمبلی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ صوبے کے 71 فیصد عوام غربت کی وجہ سے علاج و معالجہ کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتی،صحت کے لئے 87 ارب روپے کا بجٹ مختص ہے جس میں سے بجٹ کا نصف حصہ تنخواہوں میں چلا جا تا ہے،صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں 13 ہزار آسامیاں خالی ہیں 2030 تک 8ہزار نرسوں کی ضرورت ہے۔بدھ کو بلو چستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلو چستان میر سر فراز احمد بگٹی کی جانب سے قواعد و انضباط کار بلوچستان اسمبلی مجریہ 1974 کے قاعدہ نمبر (D)170کے تحت محکمہ صحت سے متعلق اراکین بلو چستان اسمبلی کو تفصیلی بریفنگ دینے کی بابت بلو چستان اسمبلی کے ہال کوکل ایوان کی مجلس تشکیل دینے کے بعد محکمہ صحت بلوچستان کی جانب سے صحت عامہ سے متعلق اراکین اسمبلی کو تفصیلی بریفنگ دی گئی اس دوران اراکین اسمبلی نے اپنے حلقوں سے متعلق وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کو تجاویز بھی پیش کیں۔وزیر صحت بلوچستان بخت محمد کاکڑ اور سیکرٹری صحت مجیب الرحمان پانیزئی نے اراکین اسمبلی کو محکمہ صحت میں کئے گئے اقدامات اور درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا۔ صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑنے بتایا کہ محکمہ صحت کے خلاف باقاعدہ مافیاز کی جانب سےپروپیگنڈا کیا گیا ،ہم کسی بھی ہسپتال کو نہیں بیج رہے بلوچستان میں 30 فیصد بچے خوراک کی کمی کاشکار ہیں تاہم محکمے کی جانب سے ریسرچ سسٹم اور ہیلتھ ایڈوزیری کونسل کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹلائزیشن کاعمل اپنارہے ہیں آج کے اس کل ایوان مجلس کا مقصد محکمہ صحت سے متعلق بریفنگ اور آئندہ ہونے والے اقدامات سے متعلق اراکین اسمبلی کا آگاہ کرنا ہے کیونکہ بلوچستان میں محکمہ صحت کی جانب سے ہیلتھ ہیڈوائزری تشکیل دیا جارہا ہے اس کے علاقے محکمے کی جانب سے اہم اقدامات بھی شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حکومت غریب عوام کو علاج کی مفت سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات کررہی ہیں تاہم وسائل، ڈاکٹروں اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے صحت کے لئے مختص 87 ارب روپے کے بجٹ کا آدھا حصہ تنخواہوں پر لگ جاتا ہے۔ سیکریٹری صحت مجیب الرحمان پانیزئی نے بتایا کہ بلوچستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے جسے کم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے صوبے کے 30فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہے سرکاری ہسپتالوں میں 13 ہزار آسامیاں خالی ہیں 2030 تک 8ہزار نرسوں کی ضرورت ہے سول ہسپتال کوئٹہ میں 1 ہزار نرسوں کی ضرورت ہے نصیرآباد میں ایک اور میڈیکل کالج بنارہے ہیں سینریٹی کے بعد 1 ہزار ڈاکٹرز کو انکے اضلاع میں تعینات کیاجائے گامحکمہ صحت میں ترقی کے خصوصی بورڈ تشکیل دے رہے ہیں 4سال پرانی 10ہزارآسامیوں پر 3 ماہ میں تقرری کی ہے ٹرشڑری ہسپتالوں کو خودمختیار بنارہے ہیں پریشر گروپ اوریونینز ہیلتھ سروس میں رکاوٹ ڈالتی ہیں سرکاری ہسپتالوں میں من پسند کمپنیوں کی ادویات لکھتے ہیں بی ایچ یو مہنگی ادویات خریدتے تھے بی ایچ یوزوغیرہ 55 اقسام کی ادویات خریدنے کے پابندہیں ہسپتالوں میں ادویات کی دستیابی کے باوجود پرچیاں باہر جتی ہیں آئندہ سے اراکین اسمبلی اپنے حلقے کی بی ایچ یوز میں ادویات کی دستیابی کے پابندہوں گے ہیلتھ کارڈ پروگرام لاگو ہوچکاہے اس میں مزید بہتری لارہے ہیں۔سیکرٹری صحت مجیب الرحمن پانیزئی نے بتایا کہ 27ہزار صحت کارڈ کے تحت ڈائیلائسز ہوئے ہیں 23ہزارکینسر کے مریضوں کا علاج کیاگیاہے صحت کارڈ کے باعث نجی ہسپتالوں کی سروسز بہتر ہوئی ہیں امراض کے بائیومیٹرک سسٹم سے کافی مدد ملے گی کارڈ کے حوالے سے مسائل حل کررہے ہیں خضدار اور لورالائی میں میڈیکل کالج بن رہے ہیں لیور ٹرانس پلانٹ کاایک یونٹ بنارہے ٹراماسینٹر مکمل ہوچکاہے ہیلتھ میں سیکٹرپلان بنارہے ہیں۔ سیکریٹری صحت مجیب الرحمن نے بتایا کہ پچھلے 7سے 8سالوں میں کوئی نئے میڈیکل آلات نہیں خریدے گئے اس خلا کو پر کیا جا رہا ہے ہسپتالوں کو اربوں روپے کی مشینری درکار ہے۔ سیکرٹری صحت مجیب الرحمن پانیزئی کا کہنا تھاکہ بڑے سرکاری ہسپتالوں کو خود مختار بنانے کی کوشش کررہے ہیں صحت کے شعبے میں اصلاحات میں ڈاکٹرز سمیت ملازمین کی یونین رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔مجیب الرحمن پانیزئی نے محکمے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں 71 فیصدلوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں اور 71فیصد لوگ اپنی جیب سے بیماری کا خرچ برداشت کرتے ہیں بلو چستان میں دوران زچگی کے ماوں کی شرح اموات چاروں صوبوں سے زیادہ ہے اور 5سال سے کم بچوں میں قوت مدافعت 38 فیصد ہے۔سیکرٹری صحت نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ محکمہ صحت کا کل بجٹ 87 ارب روپے ہے51فیصد تنخواہیں اور51 فیصد دوسرے اخراجات ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ 4سال پرانی 10 ہزاراسامیوں پر 3 ماہ میں تقرری کی ہے تاہم پریشر گروپ اوریونینز ہیلتھ سروس میں رکاوٹ ڈالتی ہیں ہیلتھ کارڈ پروگرام لاگو ہوچکاہے اس میں مزید بہتری لارہے ہیں زیادہ ترہسپتالوں میں صحت کارڈ پروگرام فعال ہے اور 27ہزار صحت کارڈ کے تحت ڈائیلائسز ہوئے ہیں جبکہ23ہزارکینسر کے مریضوں کا علاج کیاگیاہے۔بریفنگ کے بعد اراکین اسمبلی نے وزیر صحت بخت کاکڑ اور سیکرٹری صحت مجیب الرحمن سے محکمے سے متعلق فردا ًفردا ًسوالات کئے اور اپنے حلقوں سے متعلق تجاویز پیش کئے، اس دوران بلو چستان اسمبلی میں اپو زیشن رکن مولانا ہدایت الرحمن نے کہاکہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرزکی غیر حاضری سب سے بڑا مسئلہ ہے کچھ ڈاکٹرز بروقت ہسپتال میں نہیں آتے ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں نہیں آتے مگر نجی ہسپتالوں میں تندہی سے کام کرتے ہیں دعا ہے سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی بہتر ہوجائے کہ وزیر اعلی سمیت کابینہ ممبران بھی یہیں سے علاج کروائیں بلوچستان بھر میں جعلی ادویات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں جس پر کارروائی ہونی چاہیے۔ وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے اراکین اسمبلی کی تجا ویز سننے کے بعد کہاکہ وزیر اعلی سرفراز بگٹی ہفتہ قبل کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال میں زیر علاج رہے سینے میں تکلیف کی شکایت پر انکے سرکاری ہسپتال میں ٹیسٹ ہوئے میری بیٹی کا علاج بھی چلڈرن ہسپتال میں ہوا سرکاری ہسپتال میں ایک بندے کو سالانہ 5 ہزار کی میڈیس ملتی ہے تین ماہ ہڑتال کے باوجود کام کیا ہم نے نظام کو ٹھیک کرناہے جس میں تھوڑا وقت لگے گاہم ایمانداری سے کام کررہے ہیں کم وقت میں بلوچستان کے صحت کے نظام میں بہتری نظر آئے گی عید کے فوراً بعد اچھے ہسپتال کا افتتاح کریں گے ہسپتال میں تمام ادویات فراہم کی جائیں گی کینسر کے مریضوں کے ہسپتال بنایاہے،اس کا مہنگاعلاج ہے ہیلتھ سیکٹر کو ہر حال میں درست کریں گے تمام تجاویز پر عمل کریں گے سائنسی بنیادوں پر کام کررہے ہیں جہاں ڈاکٹر کام نہیں کرتے انکی سفارش یاحمایت نہیں کرنی ہے تمام اضلاع کے ڈی ایچ کیو اور بی ایچ اوز کا وزٹ کیاجائے عمل درآمد ہوگا باتیں نہیں ہوں گی عوام دیکھیں،صوبائی وزیر بخت کاکڑ نے یقین دلایا کہ ہم ہیلتھ سیکٹر کی بہتری کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور تمام تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا باتوں سے نہیں، عملی اقدامات سے عوام کو تبدیلی نظر آئے گی۔