پی ٹی آئی نے گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانونی سازی کی تھی،جسٹس نعیم اختر
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانونی سازی کی تھی۔
سپریم کورٹ پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ سزا یافتہ مجرم کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوشش ہے آج دلائل مکمل کر لوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا سلمان راجہ سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں۔ اس لیے بُرا نہ مانیے گا۔ آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے۔ جب آپ کی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی تھی۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا حصہ نہیں تھا۔ اور میں تو ہمیشہ اپوزیشن والی سائیڈ پر رہا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 5 رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کر دیا۔ اور سیکشن ٹو ڈی ختم ہونے کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں۔ اور اگر سول ملازم دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے تو ایسے سول ملازم جاسوس کا ٹرائل کہاں ہو گا؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تابع ہونے پر نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ لیکن سیکشن ٹو ڈی کی عدم موجودگی میں ٹرائل کہاں ہو گا؟۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کے تابع سول ملازم جاسوسی پر تادیبی کارروائی الگ اور ملٹری ٹرائل الگ ہو گا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا نہیں کہ ٹو ون ڈی کے بغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر کوئی سویلین مڈل مین خفیہ راز دشمن کے حوالے کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا ؟۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کا ٹرائل اسپیشل انڈر آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہو گا۔ اور آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔ میں اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دوں گا۔انہوں نے کہا کہ کلبھوش کا کیس آپ کے سامنے ہے۔ اور دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ آئین کے بنیادی حقوق دے کر ایک انگلی کے اشارے سے چھین لیے جائیں۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے ارزم جنید کو میرے حوالے کرو۔