ذوالفقار بھٹو کیس عدالتی تاریخ کا بدترین باب ہے،چیف جسٹس کا اضافی نوٹ
اسلام آباد(ڈیلی گرین گواد)چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس میں اپنا اضافی نوٹ جاری کردیا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں ذولفقار بھٹو کیس کو عدالتی تاریخ کا افسوسناک باب قرار دیا اور لکھا، ’مجھے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے نوٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا، جسٹس منصور کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں۔‘
اپنے اضافی نوٹ میں انہوں نے لکھا، ’ریفرنس میں دی گئی رائے میں کیس کے میرٹس پر کسی حد تک بات کی گئی ہے، ضابطہ فوجداری کے تحت قتل کا ٹرائل براہ راست ہائیکورٹ نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ صرف ایڈوائزری دائرہ اختیار رکھتی ہے، تاہم فیئر ٹرائل کے سوال پر فیصلے کے پیراگراف سے اتفاق کرتا ہوں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میں اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت کی جانب سے فیئر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔نہوں نے لکھا، ’یہ ریفرنس شاید ہمارے سامنے نہ آتا مگر کچھ واقعات اس کا مؤجب بنے، جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے کچھ نکات کو ایڈریس کرنا ضروری ہے، جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم نے بعد میں تسلیم کیا کہ ان پر بھٹو کیس میں بیرونی دباؤ تھا اور شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے تھے۔‘
چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں مزید کہا کہ اس وقت کی غیرمعمولی سیاسی فضا میں دباؤ نے انصاف کے عمل کو متاثر کیا، یہ سب عدالتی آزادی کے نظریات سے متصادم تھا۔نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئینی طرز حکمرانی سے انحراف سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائیوں پر غیر ضروری اثر ڈالتا ہے، ایسے حالات میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس صفدر شاہ نے جرأت مندانہ اختلاف کیا، ان ججز کا اختلاف بھلے نتائج کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا مگر غیرجانبداری کے پائیدار اصولوں کا ثبوت ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس 8 جولائی کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے اپنی تفصیلی رائے جاری کی تھی، جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر 48 صحفات پر مشتمل رائے تحریرکی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ ضیاالحق کو ہوا، اگر ذوالفقار بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیا الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔