عدالتی نظام کو مزید شفاف بنانے کیلئے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس ضروری ہے،عطا تارڑ
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطاتارڑ نے کہا ہے کہ عدالتی نظام کو مزید شفاف بنانے کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس ضروری ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی آج چین کے روہی گروپ سے ملاقات ہوئی، روہی گروپ چین کا بڑا گروپ ہے، جو پاکستان میں ٹیکسٹائل کے متعدد یونٹ لگائےگا، پہلےمرحلے میں 2 اور دوسرے مرحلے میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، روہی گروپ پاکستان میں ٹیکسٹائل پارک قائم کرے گاسندھ اور پنجاب میں ، جس سے 3 سے 5 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے پاکستان کی ایکسپورٹس کو بڑھاوا ملے گا، ہماری ایکسپورٹس 14 فیصد بڑھی ہیں، یہ ایک اچھی خبر ہے کہ چین کا بڑا گروپ ٹیکسٹائل پارک قائم کرنے جارہا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کو پہنچایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا، اس ایکٹ میں مناسب سمجھا گیا کہ ترمیم کیا جائے، اور صدر پاکستان اس پر دستخط کر چکے ہیں، اس آرڈیننس کے تحت 184(3) کے تحت جو کیسز آئیں گے ان میں تحریری طور پر بتانا ہوگا کہ یہ عوامی اہمیت کا حامل کیس کیوں ہے؟ اس میں جو ایک اور حق دیا گیا کہ 184 (3) کا جو آرڈر سپریم کورٹ پاس کرے گی اس کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کیس کے دوران جو بھی جج کہیں گے اس کا ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا اور وہ تحریر عوام کو دستیاب ہوگی، اس سے کیسز کے پروسس میں شفافیت آئے گی اور لوگ دیکھ سکیں گے کہ کیا ریمارکس پاس کیے گئے ہیں، عدالتی نظام کو مزید شفاف بنانے کے لیے یہ ضروری ہے، اب جو کیس پہلے آئے گا وہ پہلے سماعت کے لیے مقرر ہوگا، جو کیس وقت میں پہلے آیا وہ پہلے مقرر ہوگا اور یہ ممکن نہیں ہوگا کہ کسی کیس کو قطار طوڑ کر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
عطا تارڑ کے مطابق سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت جس میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس کے ساتھ سینئر ترین جج موجود ہوں گے تو اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اب اس کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے، سینئر جج ممبر ہوں گے اور جو تیسرے رکن ہیں وہ سپریم کورٹ کے جج میں سے کسی ایک کو وقتا فوقتا شامل کیا جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر تیسرے ممبر موجود نہیں ہوتے تھے تو کیسز تاخیر کا شکار ہوتے تھے، جیسے 63(اے) کا کیس ہے اس پر کام نہیں ہوسکا، تو اس کے حوالے سے کوئی فیصلہ آنا چاہیے تھا آئین کی بالا دستی کے لیے، لیکن یہ آج تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا، تو اس لیے یہ تبدیلی کی گئی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ تمام ترامیم عوام کے لیے کی گئی ہے اور عدالتی نظام کو شفاف بنانے کے لیے کی گئی ہے، اس سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی، دنیا میں ہمارے عدالتی نظام کا نمبر بھی بہتر ہوگا۔