چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو توسیع دینے کے معاملے پر غور شروع
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کے معاملے پر غور شروع کردیا گیا ہے۔
ایوان بالا کے اجلاس سے قبل سینیٹ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس ہوا جہاں رہنماؤں نے سینیٹ کے غیر فعال ہونے کے خدشے سے نمٹنےکی حکمت عملی پر مشاورت کی، اجلاس میں شریک اراکین نے رائے دی کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ 11 مارچ کو ریٹائر ہوجائیں گے، سینیٹ الیکشن 3 اپریل کو متوقع ہیں جبکہ ضمنی الیکشن 14 مارچ کو ہوں گے، 3 اپریل سے پہلے سینیٹ کا اجلاس منعقد نہیں ہو سکے گا، 3 اپریل سے پہلے نو منتخب اراکین کے حلف لینے میں بھی تاخیر کا امکان ہے۔
اراکین کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی ریٹائرمنٹ پر سیکریٹریٹ کا کام ٹھپ ہوجائے گا، اس موقع پر اجلاس میں شریک بعض اراکین نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو نئے چیئرمین کے انتخاب تک توسیع دینی چاہیے۔بعد ازاں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا جہاں سینیٹ چیئرمین کو توسیع دینے کے معاملے کی پیپلزپارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے مخالفت کردی۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ خلا پیدا ہو رہا ہے، اب ملاقات میں یہ کہا گیا کہ ہم نے توسیع دینی ہے چیئرمین کو، ہم ہر وہ چیز کرنے جا رہے ہیں جو غیر آئینی ہے، ہمیں فائدے کے لیے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان کی 6 سال عزت کم ہوئی ہے، ایوان میں تحریک عدم اعتماد کے دوران 14 لوگ غائب ہوگئے، ہاؤس میں کیمرے لگائے گئے، سینیٹر مصدق ملک اور مصطفی کھوکھر نے ڈائس پر چڑھ کر کیمرے ڈھونڈے، ایسی غیر آئینی چیزیں ہم نے کبھی نہیں دیکھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے ایسے اقدامات ہوئے ہیں کہ لگتا تھا کہ ہم اس ایوان کے ممبر ہیں بھی یا نہیں، کچھ لوگوں کو فائدہ ہوا ہوگا لیکن مجموعی طور پر یہ اچھا نہیں، سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بانی پاکستان کی تصویر کے تلے یہ سب ہم کیا کر رہے ہیں،؟سینیٹ میں کبھی پہلے ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
بعد ازاں اایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر بہرا مند تنگی کا کہنا تھا کہ سینیٹر دلاور خان انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد لے آئے، ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کہ میں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا، میں نے کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے بیٹھ جائیں، الیکشن کا ایسا ماحول بنائیں کہ الیکشن پر انگلی نہ اٹھے جو اب اٹھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے مؤقف کے بعد شیری رحمٰن اور نیئر بخاری نے پریس کانفرنس کرکے کہا کہ ہم بہرامند تنگی کو نوٹس دیتے ہیں، مجھے نوٹس دیا گیا جس کا جواب دیا کہ نہ میں نے قرارداد کے حق بات کی نہ ووٹ دیا، اس بیان کے بعد میری بنیادی رکنیت ختم کی گئی، میں اس فیصلے کو قبول کرتا ہوں، کیا پیپلزپارٹی یہاں تک آگئی ہے کہ وہ لیڈرشپ کو مس گائیڈ کرے؟سینیٹر بہرامند خان تنگی کا کہنا تھا کہ پارٹیاں اگر کسی کارکن کو نکالتے ہیں تو اس کو قبول کرنا چاہیے، کوشش ہے کہ 9 مارچ کو آخری امانت آصف زرداری کو دے دوں۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اور ان کے خاندان کے لیے کبھی کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کروں گا، شیری رحمٰن اور نیئر بخاری کی 6 سال کی سازش پایہ تکمیل تک پہنچی ہے، میں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کا فیصلہ قبول کیا ہے، اب میں پیپلزپارٹی کا ورکر نہیں ہوں، میں 11 مارچ کے بعد اپنی سیاست کا آغاز کروں گا۔
بعد ازاں سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں نے بے پناہ کوشش کی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لاؤں، نواز شریف نے اپنے دور میں تب واشنگٹن میں بات کی لیکن وہ نہیں مانے، میں نے بلنکن سے تین تفصیلی ملاقاتیں کیں، کابینہ بن جائے تو عافیہ کی واپسی کا معاملہ ترجیحی بنیادوں میں شامل کریں گے، کوشش ہو گی کہ امریکا کو باور کرائیں کہ عافیہ کو واپس لے آئیںسینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ دکھ ہے کہ عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس نہیں لا سکا، میں نے بہت کوششیں کی تھی۔